سنن النسائي - حدیث 663

كِتَابُ الْأَذَانِ الِاجْتِزَاءُ لِذَلِكَ كُلِّهِ بِأَذَانٍ وَاحِدٍ وَالْإِقَامَةُ لِكُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا صحيح أَخْبَرَنَا هَنَّادٌ عَنْ هُشَيْمٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ إِنَّ الْمُشْرِكِينَ شَغَلُوا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَرْبَعِ صَلَوَاتٍ يَوْمَ الْخَنْدَقِ فَأَمَرَ بِلَالًا فَأَذَّنَ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الظُّهْرَ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْعَصْرَ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْمَغْرِبَ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْعِشَاءَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 663

کتاب: اذان سے متعلق احکام و مسائل سب فوت شدہ نمازوں کے لیے ایک اذان اور الگ الگ اقامت کا کافی ہونا حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ تحقیق مشرکین نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جنگ خندق میں ایک دن چار نمازوں سے روکے رکھا۔ آپ نے بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تو انھوں نے اذان کہی، پھر اقامت کہی، چنانچہ آپ نے ظہر کی نماز پڑھی، پھر اقامت کہی تو آپ نے عصر کی نماز پڑھی، پھر اقامت کہی تو آپ نے مغرب کی نماز پڑھی، پھر اقامت کہی تو آپ نے عشاء کی نماز پڑھی۔
تشریح : (۱) یہ روایت اگرچہ انقطاع کی وجہ سے سنداً ضعیف ہے لیکن دیگر شواہد کی بنا پر درست ہے کیونکہ یہ مفہوم اور واقعہ دیگر صحیح احادیث میں موجود ہے۔ (۲) اصل میں ظہر اور عصر کی نمازیں فوت ہوئی تھیں۔ مغرب کا وقت ہوچکا تھا۔ اذان کہلائی گئی۔ تینوں نمازیں پڑھی گئیں۔ ظہر اور عصر تو قضا تھیں مگر مغرب وقت کے آخر میں پڑھی گئی۔ اتنے میں عشاء کا وقت ہوگیا تو ساتھ ہی وہ بھی پڑھ لی گئی۔ گویا ادائیگی کے لحاظ سے چار اکٹھی تھیں ورنہ حقیقتاً مغرب اور عشاء اپنے اپنے وقت میں تھیں۔ ادائیگی کو دیکھتے ہوئے راوی نے چار نمازوں سے روکے جانے کا ذکر کردیا۔ جنگ تو مغرب کے وقت بند ہوگئی تھی۔ اگر کچھ دیر بھی ہوگئی تو عشاء کی نماز کے فوت ہونے کا تو امکان ہی نہیں۔ سابقہ روایت میں اس کی صراحت ہے۔ اگر الگ الگ واقعہ ہو تو دوسری بات ہے اور یہی باتصحیح ہے کیونکہ دیگر روایات سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ دیکھیے فوائد و مسائل حدیث: ۶۶۴۔ (۱) یہ روایت اگرچہ انقطاع کی وجہ سے سنداً ضعیف ہے لیکن دیگر شواہد کی بنا پر درست ہے کیونکہ یہ مفہوم اور واقعہ دیگر صحیح احادیث میں موجود ہے۔ (۲) اصل میں ظہر اور عصر کی نمازیں فوت ہوئی تھیں۔ مغرب کا وقت ہوچکا تھا۔ اذان کہلائی گئی۔ تینوں نمازیں پڑھی گئیں۔ ظہر اور عصر تو قضا تھیں مگر مغرب وقت کے آخر میں پڑھی گئی۔ اتنے میں عشاء کا وقت ہوگیا تو ساتھ ہی وہ بھی پڑھ لی گئی۔ گویا ادائیگی کے لحاظ سے چار اکٹھی تھیں ورنہ حقیقتاً مغرب اور عشاء اپنے اپنے وقت میں تھیں۔ ادائیگی کو دیکھتے ہوئے راوی نے چار نمازوں سے روکے جانے کا ذکر کردیا۔ جنگ تو مغرب کے وقت بند ہوگئی تھی۔ اگر کچھ دیر بھی ہوگئی تو عشاء کی نماز کے فوت ہونے کا تو امکان ہی نہیں۔ سابقہ روایت میں اس کی صراحت ہے۔ اگر الگ الگ واقعہ ہو تو دوسری بات ہے اور یہی باتصحیح ہے کیونکہ دیگر روایات سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ دیکھیے فوائد و مسائل حدیث: ۶۶۴۔