سنن النسائي - حدیث 656

كِتَابُ الْأَذَانِ الْأَذَانُ لِمَنْ يَجْمَعُ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ فِي وَقْتِ الْأُولَى مِنْهُمَا صحيح أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ هَارُونَ قَالَ حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَعِيلَ قَالَ أَنْبَأَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ سَارَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَتَى عَرَفَةَ فَوَجَدَ الْقُبَّةَ قَدْ ضُرِبَتْ لَهُ بِنَمِرَةَ فَنَزَلَ بِهَا حَتَّى إِذَا زَاغَتْ الشَّمْسُ أَمَرَ بِالْقَصْوَاءِ فَرُحِّلَتْ لَهُ حَتَّى إِذَا انْتَهَى إِلَى بَطْنِ الْوَادِي خَطَبَ النَّاسَ ثُمَّ أَذَّنَ بِلَالٌ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الظُّهْرَ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْعَصْرَ وَلَمْ يُصَلِّ بَيْنَهُمَا شَيْئًا

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 656

کتاب: اذان سے متعلق احکام و مسائل جو شخص دونمازوں کو پہلی(نماز) کے وقت میں جمع کرے تو وہ شروع میں اذان کہے گا حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چلے حتیٰ کہ عرفہ میں آئے تو وہاں وادیٔ نمرہ میں اپنے لیے خیمہ لگا ہوا پایا، چنانچہ آپ اس میں اترے حتیٰ کہ جب سورج ڈھل گیا تو آپ نے حکم دیا، (آپ کی اونٹنی) قصواء پر پالان کسا گیا۔ جب آپ وادیٔ نمرہ کے نشیب میں پہنچے تو لوگوں کو خطبہ دیا، پھر بلال نے اذان کہی، پھر اقامت کہی تو آپ نے ظہر کی نماز پڑھائی، پھر اقامت کہی تو عصر کی نماز پڑھائی اور ان کے درمیان کوئی (نفل) نماز نہیں پڑھی۔
تشریح : (۱) نمرہ عرفات سے متصل ایک وادی ہے جو عرفات میں شامل نہیں۔ اس جگہ خطبۂ حج اور ظہر و عصر کی نمازیں جمع ہوتی ہیں۔ پھر وقوف عرفات میںہوتا ہے۔ آج کل مسجد نمرہ اس وادی میں بنی ہوئی ہے۔ توسیع کی بنا پر کچھ حصہ عرفات میں آگیا ہے۔ (۲) جب دو نمازوں کو پہلی کے وقت میں جمع کریں گے تو صرف پہلی کے لیے اذان کہیں گے۔ ہاں، دونوں نمازوں کے لیے اقامت الگ الگ ہوگی کیونکہ اقامت صرف جماعت کی اطلاع دینے کے لیے ہے، نیز جمع کی صورت میں دوسری اذان کی ضرورت اس لیے بھی نہیں کہ لوگ پہلے سے جمع ہیں۔ (۳) دو نمازوں کے جمع کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ درمیان میں نوافل نہ پڑھے جائیں۔ (۱) نمرہ عرفات سے متصل ایک وادی ہے جو عرفات میں شامل نہیں۔ اس جگہ خطبۂ حج اور ظہر و عصر کی نمازیں جمع ہوتی ہیں۔ پھر وقوف عرفات میںہوتا ہے۔ آج کل مسجد نمرہ اس وادی میں بنی ہوئی ہے۔ توسیع کی بنا پر کچھ حصہ عرفات میں آگیا ہے۔ (۲) جب دو نمازوں کو پہلی کے وقت میں جمع کریں گے تو صرف پہلی کے لیے اذان کہیں گے۔ ہاں، دونوں نمازوں کے لیے اقامت الگ الگ ہوگی کیونکہ اقامت صرف جماعت کی اطلاع دینے کے لیے ہے، نیز جمع کی صورت میں دوسری اذان کی ضرورت اس لیے بھی نہیں کہ لوگ پہلے سے جمع ہیں۔ (۳) دو نمازوں کے جمع کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ درمیان میں نوافل نہ پڑھے جائیں۔