سنن النسائي - حدیث 655

كِتَابُ الْأَذَانِ مَنْ يُمْنَعُ مِنْ الْمَسْجِدِ صحيح أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ عَنْ مَالِكٍ عَنْ نَافِعٍ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ أَذَّنَ بِالصَّلَاةِ فِي لَيْلَةٍ ذَاتِ بَرْدٍ وَرِيحٍ فَقَالَ أَلَا صَلُّوا فِي الرِّحَالِ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْمُرُ الْمُؤَذِّنَ إِذَا كَانَتْ لَيْلَةٌ بَارِدَةٌ ذَاتُ مَطَرٍ يَقُولُ أَلَا صَلُّوا فِي الرِّحَالِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 655

کتاب: اذان سے متعلق احکام و مسائل کس شخص کو مسجد آنے سے روکا جا سکتا ہے؟ امام نافع رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ٹھنڈی ہوا والی رات میں اذان کہی تو فرمایا: [الا صلوا فی الرحال] ’’خبردار! گھروں میں نماز پڑھ لو۔‘‘ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مؤذن کو حکم دیتے، جب بارش والی ٹھنڈی رات ہوتی کہ وہ (اذان میں) کے: [الا صلوا فی الرحال]
تشریح : ’’گھروں میں نماز پڑھ لو۔‘‘ کے اعلان سے معلوم ہوا کہ بارش وغیرہ میں دو نمازوں کو اکٹھا کرنے کی بجائے یہ اعلان کر دینا زیادہ صحیح ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جمع کرنے کی بجائے گھرو میں نماز پڑھنے کی رخصت عنایت فرما دی ہے، پھر جمع کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اگرچہ بعض روایات کے مفہوم [من غیر خوف ولا مطر] اور بعض صحابہ سے ایسے موقع پر جمع کرنے کا ثبوت ملتا ہے جس سے اس کے جواز میں شک نہیں رہتا، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بارش کے موقع پر جمع کرنے کی بجائے رخصت کے اعلان ہی کا ثبوت ملتا ہے۔ ’’گھروں میں نماز پڑھ لو۔‘‘ کے اعلان سے معلوم ہوا کہ بارش وغیرہ میں دو نمازوں کو اکٹھا کرنے کی بجائے یہ اعلان کر دینا زیادہ صحیح ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جمع کرنے کی بجائے گھرو میں نماز پڑھنے کی رخصت عنایت فرما دی ہے، پھر جمع کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اگرچہ بعض روایات کے مفہوم [من غیر خوف ولا مطر] اور بعض صحابہ سے ایسے موقع پر جمع کرنے کا ثبوت ملتا ہے جس سے اس کے جواز میں شک نہیں رہتا، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بارش کے موقع پر جمع کرنے کی بجائے رخصت کے اعلان ہی کا ثبوت ملتا ہے۔