سنن النسائي - حدیث 642

كِتَابُ الْأَذَانِ الْأَذَانُ فِي غَيْرِ وَقْتِ الصَّلَاةِ صحيح أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ أَنْبَأَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ بِلَالًا يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ لِيُوقِظَ نَائِمَكُمْ وَلِيَرْجِعَ قَائِمَكُمْ وَلَيْسَ أَنْ يَقُولَ هَكَذَا يَعْنِي فِي الصُّبْحِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 642

کتاب: اذان سے متعلق احکام و مسائل نماز کے وقت سے پہلے اذان کہنا حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تحقیق بلال رات کو اذان کہتے ہیں تاکہ سونے والے کو جگائیں اور قیام کرنے والے کو قیام سے لوٹائیں (تاکہ وہ کچھ آرام کرلے) اور صبح صادق ایسی نہیں ہوتی (جیسی بلال کی اذان کے وقت ہوتی ہے)۔‘‘
تشریح : (۱) حضرت بلال رضی اللہ عنہ فجر طلوع ہونے سے قبل اذان کہتے تھے۔ بعض کا خیال ہے کہ وہ فجر کاذب کا وقت ہوتا تھا جیسا کہ اس حدیث میں اشارہ ہے۔ یہ اذان دراصل صبح کی نماز کی تیاری کے لیے ہوتی تھی تاکہ لوگ اپنی مصروفیات (قضائے حاجت، غسل وغیرہ) سے دوسری اذان تک فارغ ہوو جائیں، دوسری اذان کے بعد مسجد میں پہنچ جائیں اور نماز اول وقت پر پڑھی جاسکے۔ (۲) پہلی اذان کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ جو تہجد وغیرہ پڑھ رہے ہیں، وہ نماز کو مختصر کر دیں اور وتر وغیرہ پڑھ لیں کیونکہ فجر کا وقت ہونے والا ہے۔ (۱) حضرت بلال رضی اللہ عنہ فجر طلوع ہونے سے قبل اذان کہتے تھے۔ بعض کا خیال ہے کہ وہ فجر کاذب کا وقت ہوتا تھا جیسا کہ اس حدیث میں اشارہ ہے۔ یہ اذان دراصل صبح کی نماز کی تیاری کے لیے ہوتی تھی تاکہ لوگ اپنی مصروفیات (قضائے حاجت، غسل وغیرہ) سے دوسری اذان تک فارغ ہوو جائیں، دوسری اذان کے بعد مسجد میں پہنچ جائیں اور نماز اول وقت پر پڑھی جاسکے۔ (۲) پہلی اذان کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ جو تہجد وغیرہ پڑھ رہے ہیں، وہ نماز کو مختصر کر دیں اور وتر وغیرہ پڑھ لیں کیونکہ فجر کا وقت ہونے والا ہے۔