كِتَابُ الْأَذَانِ هَلْ يُؤَذِّنَانِ جَمِيعًا أَوْ فُرَادَى صحيح أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ هُشَيْمٍ قَالَ أَنْبَأَنَا مَنْصُورٌ عَنْ خُبَيْبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عَمَّتِهِ أُنَيْسَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَذَّنَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ فَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَإِذَا أَذَّنَ بِلَالٌ فَلَا تَأْكُلُوا وَلَا تَشْرَبُوا
کتاب: اذان سے متعلق احکام و مسائل
دونوں مؤذن اکٹھے اذان کہیں یا الگ الگ ؟(یکے بعد دیگرے)
حضرت انیسہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب ابن ام مکتوم اذان کہیں تو تم کھاتے پیتے رہو اور جب بلال اذان کہیں تو کھانا پینا بند کر دو۔‘‘
تشریح :
سابقہ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ بلال پہلی اذان کہتے تھے اور ابن ام مکتوم دوسری۔ اس روایت میں الٹ ہے کہ ابن ام مکتوم پہلی اذان کہتے تھے اور بلال دوسری۔ ممکن ہے کہ وہ آپس میں نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے باری بدلتے رہتے ہوں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ابتدا میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ پہلی اذان کہتے ہوں اور حضرت عمرو بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ دوسری، پھر بعد میں بلال رضی اللہ عنہ کے ذمے دوسری اذان ہوگئی ہو اور عمرو بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کے ذمے پہلی۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے نزدیک ان کا اصل نام عمرو ہے جبکہ انھوں نے عبداللہ بھ صیغۂ تمریض کے ساتھ بیان کیا ہے۔ دیکھیے: (تقریب التہذیب: ۷۳۴/۱ و ۵۵۲/۲) جبکہ حافظ ابن عبدالبر وغیرہ نے اس حدیث میں قلب واقع ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور کہا ہے کہ درست روایت ابن عمر رضی اللہ عنہما وغیرہ کی ہے۔ لیکن یہ دعویٰ درست نہیں بلکہ حدیث صحیح ہے۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: (فتح الباري: ۱۰۳/۲) واللہ أعلم۔
سابقہ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ بلال پہلی اذان کہتے تھے اور ابن ام مکتوم دوسری۔ اس روایت میں الٹ ہے کہ ابن ام مکتوم پہلی اذان کہتے تھے اور بلال دوسری۔ ممکن ہے کہ وہ آپس میں نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے باری بدلتے رہتے ہوں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ابتدا میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ پہلی اذان کہتے ہوں اور حضرت عمرو بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ دوسری، پھر بعد میں بلال رضی اللہ عنہ کے ذمے دوسری اذان ہوگئی ہو اور عمرو بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کے ذمے پہلی۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے نزدیک ان کا اصل نام عمرو ہے جبکہ انھوں نے عبداللہ بھ صیغۂ تمریض کے ساتھ بیان کیا ہے۔ دیکھیے: (تقریب التہذیب: ۷۳۴/۱ و ۵۵۲/۲) جبکہ حافظ ابن عبدالبر وغیرہ نے اس حدیث میں قلب واقع ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور کہا ہے کہ درست روایت ابن عمر رضی اللہ عنہما وغیرہ کی ہے۔ لیکن یہ دعویٰ درست نہیں بلکہ حدیث صحیح ہے۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: (فتح الباري: ۱۰۳/۲) واللہ أعلم۔