سنن النسائي - حدیث 638

كِتَابُ الْأَذَانِ الْمُؤَذِّنَانِ لِلْمَسْجِدِ الْوَاحِدِ سكت عنه الشيخ الألباني أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ عَنْ مَالِكٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ بِلَالًا يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ فَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يُنَادِيَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 638

کتاب: اذان سے متعلق احکام و مسائل ایک مسجد کے لیے دو مؤذن بھی مقرر کیے جا سکتے ہیں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تحقیق بلال () رات کو اذان کہتے ہیں، لہٰذا تم کھاتے پیتے رہنا حتی کہ عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ اذان کہیں۔
تشریح : (۱) اگر ایک نماز کے لیے دو اذانیں ہوں (جیسے فجر اور جمعۃ المبارک) تو مؤذن بھی دو چاہئیں تاکہ آواز کا امتیاز رہے اور لوگ پہلی اور دوسری اذان میں امتیاز کرسکیں۔ (ہ) آپ کے دور مبارک میں صلاۃ فجر کے لیے دو اذانیں ہوا کرتی تھیں۔ ایک فجرکے طلوع سے پہلے تاکہ لوگ جاگ جائیں اور حوائج ضروریہ سے فارغ ہولیں کیونکہ قدرتی طور پر اس وقت باقی نمازوں کے اوقات کے مقابل میں زیادہ مصروفیت ہوتی ہے۔ اگر ایک اذان پر اکتفا کرتے تو لوگ جماعت سے رہ جاتے اور دوسری اذان طلوع فجر کے بعد نماز فجر کا قرب ظاہر کرنے کے لیے تاکہ لوگ گھروں سے چل پڑیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اذان اور اقامت میں زیادہ فاصلہ نہیں فرماتے تھے بلکہ اندھیرے میں نماز شروع فرماتے تھے۔ پہلی اذان بلال رضی اللہ عنہ کہتے اور دوسری ابن ام مکتوم۔ (۳) پہلی اذان نہ تو تہجد کے لیے تھی نہ سحری کے لیے، بلکہ یہ اصل اذان سے تھوڑی دیر قبل ہوتی تھی۔ مقصد اوپر بیان ہوچکا ہے۔ تہجد نفل ہیں اور نفل نماز کے لیے اذان نہیں، جیسے صلاۃ عید، صلاۃ کسوف، صلاۃ استسقا اور تراویح وغیرہ، لہٰذا تہجد کے لیے بھی اذان نہیں ہوگی۔ سحری ویسے ہی اذان سے غیر متعلق ہے۔ اذان نماز کے لیے ہے نہ کہ کھانے کے لیے۔ ہاں! ان دو اذانوں سے کوئی سحری کا فائدہ اٹھانا چاہے تو اٹھا لے، منع نہیں جیسا کہ حدیث کے اندر اشارہ موجود ہے۔ مزید اسی کتاب کا ابتدائیہ دیکھیے۔ (۱) اگر ایک نماز کے لیے دو اذانیں ہوں (جیسے فجر اور جمعۃ المبارک) تو مؤذن بھی دو چاہئیں تاکہ آواز کا امتیاز رہے اور لوگ پہلی اور دوسری اذان میں امتیاز کرسکیں۔ (ہ) آپ کے دور مبارک میں صلاۃ فجر کے لیے دو اذانیں ہوا کرتی تھیں۔ ایک فجرکے طلوع سے پہلے تاکہ لوگ جاگ جائیں اور حوائج ضروریہ سے فارغ ہولیں کیونکہ قدرتی طور پر اس وقت باقی نمازوں کے اوقات کے مقابل میں زیادہ مصروفیت ہوتی ہے۔ اگر ایک اذان پر اکتفا کرتے تو لوگ جماعت سے رہ جاتے اور دوسری اذان طلوع فجر کے بعد نماز فجر کا قرب ظاہر کرنے کے لیے تاکہ لوگ گھروں سے چل پڑیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اذان اور اقامت میں زیادہ فاصلہ نہیں فرماتے تھے بلکہ اندھیرے میں نماز شروع فرماتے تھے۔ پہلی اذان بلال رضی اللہ عنہ کہتے اور دوسری ابن ام مکتوم۔ (۳) پہلی اذان نہ تو تہجد کے لیے تھی نہ سحری کے لیے، بلکہ یہ اصل اذان سے تھوڑی دیر قبل ہوتی تھی۔ مقصد اوپر بیان ہوچکا ہے۔ تہجد نفل ہیں اور نفل نماز کے لیے اذان نہیں، جیسے صلاۃ عید، صلاۃ کسوف، صلاۃ استسقا اور تراویح وغیرہ، لہٰذا تہجد کے لیے بھی اذان نہیں ہوگی۔ سحری ویسے ہی اذان سے غیر متعلق ہے۔ اذان نماز کے لیے ہے نہ کہ کھانے کے لیے۔ ہاں! ان دو اذانوں سے کوئی سحری کا فائدہ اٹھانا چاہے تو اٹھا لے، منع نہیں جیسا کہ حدیث کے اندر اشارہ موجود ہے۔ مزید اسی کتاب کا ابتدائیہ دیکھیے۔