سنن النسائي - حدیث 636

كِتَابُ الْأَذَانِ اجْتِزَاءُ الْمَرْءِ بِأَذَانِ غَيْرِهِ فِي الْحَضَرِ صحيح أَخْبَرَنِي زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ قَالَ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ قَالَ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ قَالَ أَتَيْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ شَبَبَةٌ مُتَقَارِبُونَ فَأَقَمْنَا عِنْدَهُ عِشْرِينَ لَيْلَةً وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَحِيمًا رَفِيقًا فَظَنَّ أَنَّا قَدْ اشْتَقْنَا إِلَى أَهْلِنَا فَسَأَلَنَا عَمَّنْ تَرَكْنَاهُ مِنْ أَهْلِنَا فَأَخْبَرْنَاهُ فَقَالَ ارْجِعُوا إِلَى أَهْلِيكُمْ فَأَقِيمُوا عِنْدَهُمْ وَعَلِّمُوهُمْ وَمُرُوهُمْ إِذَا حَضَرَتْ الصَّلَاةُ فَلْيُؤَذِّنْ لَكُمْ أَحَدُكُمْ وَلْيَؤُمَّكُمْ أَكْبَرُكُمْ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 636

کتاب: اذان سے متعلق احکام و مسائل دوسرے کی اذان کافی ہونے کا بیان حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور ہم سب کے سب نوجوان ہم عمر تھے۔ ہم آپ کے پاس بیس راتیں ٹھہرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے رحم کرنے والے اور نہایت نرم دل تھے۔ آپ نے محسوس فرمایا کہ ہم کو گھر والوں کا اشتیاق ہوگیاا ہے تو آپ نے ہم سے پوچھا کہ تم کن کن کو گھر چھوڑ کر آئے ہو؟ ہم سب نے (اپنے اپنے حساب سے) آپ کو بتایا۔ آپ نے فرمایا: ’’تم اپنے گھر بار کی طرف لوٹ جائو، ان کے پاس رہو، انھیں تعلیم دو اور انھیں اسلامی احکام بتلاؤ۔ جب نماز کا وقت آئے تو تم میں سے ایک آدمی اذان کہے اور بڑا جماعت کرائے۔‘‘
تشریح : (۱) سابقہ حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا تھا: ’’تم اذان کہو۔‘‘ اس سے غلط فہمی ہوسکتی تھی کہ شاید سب اذان کہیں۔ یہ روایت وضاحت کرتی ہے کہ صرف ایک آدمی اذان کہے، دوسرے لوگ اسی کی اذان پر اکتفا کریں۔ باب کا مقصد بھی یہی ہے۔ (۲) احکام دین کا علم حاصل کرنا چاہیے اگرچہ اس کے لیے دور دراز کا سفر بھی کرنا پڑے۔ (۳) دین سے ناواقف آدمی کو تعلیم دینا عالم پر فرض ہے۔ (۱) سابقہ حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا تھا: ’’تم اذان کہو۔‘‘ اس سے غلط فہمی ہوسکتی تھی کہ شاید سب اذان کہیں۔ یہ روایت وضاحت کرتی ہے کہ صرف ایک آدمی اذان کہے، دوسرے لوگ اسی کی اذان پر اکتفا کریں۔ باب کا مقصد بھی یہی ہے۔ (۲) احکام دین کا علم حاصل کرنا چاہیے اگرچہ اس کے لیے دور دراز کا سفر بھی کرنا پڑے۔ (۳) دین سے ناواقف آدمی کو تعلیم دینا عالم پر فرض ہے۔