سنن النسائي - حدیث 634

كِتَابُ الْأَذَانِ الْأَذَانُ فِي السَّفَرِ صحيح أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَسَنِ قَالَ حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ السَّائِبِ قَالَ أَخْبَرَنِي أَبِي وَأُمُّ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي مَحْذُورَةَ عَنْ أَبِي مَحْذُورَةَ قَالَ لَمَّا خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ حُنَيْنٍ خَرَجْتُ عَاشِرَ عَشْرَةٍ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ نَطْلُبُهُمْ فَسَمِعْنَاهُمْ يُؤَذِّنُونَ بِالصَّلَاةِ فَقُمْنَا نُؤَذِّنُ نَسْتَهْزِئُ بِهِمْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ سَمِعْتُ فِي هَؤُلَاءِ تَأْذِينَ إِنْسَانٍ حَسَنِ الصَّوْتِ فَأَرْسَلَ إِلَيْنَا فَأَذَّنَّا رَجُلٌ رَجُلٌ وَكُنْتُ آخِرَهُمْ فَقَالَ حِينَ أَذَّنْتُ تَعَالَ فَأَجْلَسَنِي بَيْنَ يَدَيْهِ فَمَسَحَ عَلَى نَاصِيَتِي وَبَرَّكَ عَلَيَّ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ثُمَّ قَالَ اذْهَبْ فَأَذِّنْ عِنْدَ الْبَيْتِ الْحَرَامِ قُلْتُ كَيْفَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَعَلَّمَنِي كَمَا تُؤَذِّنُونَ الْآنَ بِهَا اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ الصَّلَاةُ خَيْرٌ مِنْ النَّوْمِ فِي الْأُولَى مِنْ الصُّبْحِ قَالَ وَعَلَّمَنِي الْإِقَامَةَ مَرَّتَيْنِ اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ قَدْ قَامَتْ الصَّلَاةُ قَدْ قَامَتْ الصَّلَاةُ اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ أَخْبَرَنِي عُثْمَانُ هَذَا الْخَبَرَ كُلَّهُ عَنْ أَبِيهِ وَعَنْ أُمِّ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي مَحْذُورَةَ أَنَّهُمَا سَمِعَا ذَلِكَ مِنْ أَبِي مَحْذُورَةَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 634

کتاب: اذان سے متعلق احکام و مسائل سفر میں اذان کہنے کا بیان حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حنین (کی وادی) سے نکلے ہم مکہ والے دس لڑکے ان (مسلمانوں) کی تلاش میں نکلے۔ ہم نے انھیں سنا، وہ نماز کی اذان کہہ رہے تھے۔ ہم بھی کھڑے ہوکر انھیں مذاق کرتے ہوئے اذان کہنے لگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں نے ان میں سے ایک اچھی آواز والے لڑکے کی آواز سنی ہے۔‘‘ سو آپ نے ہمیں بلا بھیجا۔ ہم میں سے ہر ایک نے باری باری اذان کہی۔ میں سب سے آخر میں تھا۔ جب میں نے اذان کہی تو آپ نے فرمایا: ’’ادھر آؤ۔‘‘ اور مجھے اپنے سامنے بٹھا لیا اور میری پیشانی پر ہاتھ پھیرنے لگے اور تین دفعہ میرے لیے برکت کی دعا کی۔ پھر فرمایا: ’’جاؤ، بیت اللہ کے پاس اذان کہا کرو۔‘‘ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیسے (اذان کہوں)؟ تو آپ نے مجھے اذان سکھلائی جیسا کہ تم اب کہتے ہو: اللہ اکبر اللہ اکبر، اللہ اکبر اللہ اکبر، اشھد ان لا الہ الا اللہ، اشھد ان لا الہ الا اللہ، اشھدان محمدا رسول اللہ، اشھد ان محمدا رسول اللہ، اشھد ان لا الہ الا اللہ، اشھد ان لا الہ الا اللہ، اشھد ان محمدا رسول اللہ، اشھدان محمدا رسول اللہ، حی علی اصلاۃ، حی علی الصلاۃ، حی علی الفلاح، حی علی الفلاح اور صبح کی پہلی اذان میں الصلاۃ خیر من النوم، الصلاۃ خیر من النوم ’’نماز نیند سے بہتر ہے۔‘‘ انھوں نے کہا: آپ نے مجھے اقامت دہری سکھائی، اللہ اکبر اللہ اکبر، اللہ اکبر اللہ اکبر، اشھد ان لا الہ الا اللہ، اشھد ان لا الہ الا اللہ، اشھد ان محمدا رسول اللہ، اشھد ان محمدا رسول اللہ، حی علی الصلاۃ، حی علی الصلاۃ، حی علی الفلاح، حی علی الفلاح، قد قامت الصلاۃ، قد قامت الصلاۃ، ’’نماز کھڑی ہوگئی، نماز کھڑی ہوگئی‘‘ اللہ اکبر اللہ اکبر، لا الہ الا اللہ۔ ابن جریج بیان کرتے ہیں کہ مجھے یہ حدیث عثمان بن سائب نے اپنے والد اور عبدالملک بن ابومحذورہ کی والدہ سے بیان کی ہے اور ان دونوں نے یہ حدیث خود حضرت ابومحذورہ رضی اللہ عنہ سےسنی ہے۔
تشریح : (۱) یہی بات اصل سند میں بھی مذکور ہے، البتہ اس میں سماع اور تحدیث کی صراحت نہیں جب کہ یہاں سماع کی صراحت ہے، اس کے علاوہ کئوی فرق نہیں ہے۔ (۲) یہ روایت بھی پہلی روایت ہی ہے۔ تفصیلات میں کچھ فرق ہے جو ایک دوسرے کو ملا کر حل ہوسکتا ہے۔ (۳) ’’صبح کی پہلی اذان‘‘ اس سے مراد فجر کی اذان ہی ہے۔ اسے پہلی، اقامت کے لحاظ سے کہا گیا ہے۔ گویا اقامت دوسری اذان ہے۔ اس حدیث سے صریح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ صبح کی اذان میں الصلاۃ خیر من النوم کے الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےثابت ہیں نہ کہ یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اضافہ ہے جیسا کہ اہل تشیع کا خیال ہے۔ مزید تفصیل کے لیے اسی کتاب کا ابتدائیہ دیکھیے۔ (۴) پچھلی روایت میں تھیلی دینے کا بھی ذکر ہے۔ یہ تھیلی اذان کی اجرت نہیں کیونکہ اذان کے لیے تقرر تو اس کے بعد ہوا۔ یہ تو نومسلمین کے لیے تالیف قلب کے قبیل سے ہے جس طرح کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غنائم حنین میں سے نومسلم حضرات کو بڑے عطیے دیے تھے۔ (۱) یہی بات اصل سند میں بھی مذکور ہے، البتہ اس میں سماع اور تحدیث کی صراحت نہیں جب کہ یہاں سماع کی صراحت ہے، اس کے علاوہ کئوی فرق نہیں ہے۔ (۲) یہ روایت بھی پہلی روایت ہی ہے۔ تفصیلات میں کچھ فرق ہے جو ایک دوسرے کو ملا کر حل ہوسکتا ہے۔ (۳) ’’صبح کی پہلی اذان‘‘ اس سے مراد فجر کی اذان ہی ہے۔ اسے پہلی، اقامت کے لحاظ سے کہا گیا ہے۔ گویا اقامت دوسری اذان ہے۔ اس حدیث سے صریح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ صبح کی اذان میں الصلاۃ خیر من النوم کے الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےثابت ہیں نہ کہ یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اضافہ ہے جیسا کہ اہل تشیع کا خیال ہے۔ مزید تفصیل کے لیے اسی کتاب کا ابتدائیہ دیکھیے۔ (۴) پچھلی روایت میں تھیلی دینے کا بھی ذکر ہے۔ یہ تھیلی اذان کی اجرت نہیں کیونکہ اذان کے لیے تقرر تو اس کے بعد ہوا۔ یہ تو نومسلمین کے لیے تالیف قلب کے قبیل سے ہے جس طرح کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غنائم حنین میں سے نومسلم حضرات کو بڑے عطیے دیے تھے۔