سنن النسائي - حدیث 632

كِتَابُ الْأَذَانِ كَيْفَ الْأَذَانُ حسن صحيح أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ أَنْبَأَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ عَامِرٍ الْأَحْوَلِ عَنْ مَكْحُولٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَيْرِيزٍ عَنْ أَبِي مَحْذُورَةَ قَالَ عَلَّمَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْأَذَانَ فَقَالَ اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ ثُمَّ يَعُودُ فَيَقُولُ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 632

کتاب: اذان سے متعلق احکام و مسائل اذان کیسے ہے ؟ حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اذان سکھلائی اور فرمایا: [اللہ أکبر اللہ أکبر، اللہ أکبر اللہ أکبر] ’’اللہ سب سے بڑا ہے۔……‘‘ [أشھد ان لا إلہ إلا اللہ، أشھد أن لا إلہ إلا اللہ] ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کئوی معبود نہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔‘‘ [أشھد أن محمدا رسول اللہ، أشھدا أن محمدا رسول اللہ] ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (ﷺ) اللہ کے رسول ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے رسول ہیں۔‘‘ پھر دو بارہ کہے: [أشھد أن لا إلہ إلاا اللہ، أشھد أن لا إلہ إلا اللہ، أشھد أن محمدا رسول اللہ، أشھد أن محمدا رسول اللہ، حی علی الصلاۃ، حی علی الصلاۃ] ’’نماز کے لیے آؤ، نماز کے لیے آؤ۔‘‘ [حی علی الفلاح، حی علی الفلاح] ’’کامیابی کے لیے آؤ، کامیابی کے لیے آؤ۔‘‘ [اللہ اکبر اللہ أکبر، لا إلہ إلا اللہ] ’’اللہ سب سے بڑا ہے۔ اللہ سب سے بڑا ہے۔ اللہ کے سوا کوئی برحق معبود نہیں۔‘‘
تشریح : یہ وہ اذان ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ کو فتح مکہ کے موقع پر سکھای تھی۔ اسے ترجیع والی (دہری) اذان کہا جاتا ہے۔ صحیح روایات کے باوجود احناف ترجیع والی اذان کے قائل و فاعل نہیں بلکہ اس حدیث کی مختلف تاویلیں کرتے ہیں، مثلاً: ابومحذورہ رضی اللہ عنہ سمجھ نہیں سکے۔ آپ نے انھیں اذان سکھاتے وقت شہادتین کو دہرایا تھا جس طرح استاد ایک مشکل لفظ کو بار بار دہراتا ہے، مقصد تکرار نہیں ہوتا بلکہ سمجھانا مقصود ہوتا ہے، اسی طرح آپ نے تو اس لیے تکرار کیا تھا کہ وہ نومسلم تھے، توحید و رسالت کو اُن کے ذہن میں پختہ کرنے کے لیے آپ نے تکرار کیا۔ ابومحذورہ رضی اللہ عنہ سمجھے کہ شاید یہ تکرار اذان کا حصہ ہے۔ یا انھوں نے پہلے شرماتے ہوئے شہادتین کو پست آواز سے ادا کیا، آپ نے فرمایا: اونچی آواز سے دوبارہ پڑھو اور ابومحذورہ رضی اللہ عنہ سمجھے کہ طریقہ ہی یہ ہے کہ پہلے آہستہ شہادتین کو ادا کیا جائے، پھر بلند آواز سے وغیرہ، مگر ایک خالی ذہن والا شخص ان تاویلات کو مضحکہ خیز قرار دے گا کہ جس صحابی کو رسول اللہ رضی اللہ عنہ سکھا رہے ہیں وہ تو صحیح نہیں سمجھے اور یہ سمجھ گئے جو کہ کئی سو سال بعد آئے، نیز ابومحذورہ رضی اللہ عنہ یہ اذان فتح مکہ سے لے کر آپ کی زندگی کے آخر تک، پھر خلفائے راشدین کے عہد میں بھی کہتے رہے۔ حجۃ الوداع کے دن بھی اسی میں آتے ہیں جب آپ اور ہزاروں صحابہ مکہ میں موجود تھے۔ تعجب ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام اور بعد میں خلفائے راشدین اس غلطی پر متنبہ نہ ہوسکے، کئی سو سال بعد آنے والے متنبہ ہوگئے۔ فیا للعجب۔ حقیقت یہ ہے کہ دہری اذان (ترجیع والی) اور اکہری اقامت (بلال والی) قطعا صحیح ہیں۔ احناف صرف تقلید کے زیر اثر ان سے منکر ہیں اور یہ تقلید کی قباحتوں میں سے ایک ہے۔ یہ وہ اذان ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ کو فتح مکہ کے موقع پر سکھای تھی۔ اسے ترجیع والی (دہری) اذان کہا جاتا ہے۔ صحیح روایات کے باوجود احناف ترجیع والی اذان کے قائل و فاعل نہیں بلکہ اس حدیث کی مختلف تاویلیں کرتے ہیں، مثلاً: ابومحذورہ رضی اللہ عنہ سمجھ نہیں سکے۔ آپ نے انھیں اذان سکھاتے وقت شہادتین کو دہرایا تھا جس طرح استاد ایک مشکل لفظ کو بار بار دہراتا ہے، مقصد تکرار نہیں ہوتا بلکہ سمجھانا مقصود ہوتا ہے، اسی طرح آپ نے تو اس لیے تکرار کیا تھا کہ وہ نومسلم تھے، توحید و رسالت کو اُن کے ذہن میں پختہ کرنے کے لیے آپ نے تکرار کیا۔ ابومحذورہ رضی اللہ عنہ سمجھے کہ شاید یہ تکرار اذان کا حصہ ہے۔ یا انھوں نے پہلے شرماتے ہوئے شہادتین کو پست آواز سے ادا کیا، آپ نے فرمایا: اونچی آواز سے دوبارہ پڑھو اور ابومحذورہ رضی اللہ عنہ سمجھے کہ طریقہ ہی یہ ہے کہ پہلے آہستہ شہادتین کو ادا کیا جائے، پھر بلند آواز سے وغیرہ، مگر ایک خالی ذہن والا شخص ان تاویلات کو مضحکہ خیز قرار دے گا کہ جس صحابی کو رسول اللہ رضی اللہ عنہ سکھا رہے ہیں وہ تو صحیح نہیں سمجھے اور یہ سمجھ گئے جو کہ کئی سو سال بعد آئے، نیز ابومحذورہ رضی اللہ عنہ یہ اذان فتح مکہ سے لے کر آپ کی زندگی کے آخر تک، پھر خلفائے راشدین کے عہد میں بھی کہتے رہے۔ حجۃ الوداع کے دن بھی اسی میں آتے ہیں جب آپ اور ہزاروں صحابہ مکہ میں موجود تھے۔ تعجب ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام اور بعد میں خلفائے راشدین اس غلطی پر متنبہ نہ ہوسکے، کئی سو سال بعد آنے والے متنبہ ہوگئے۔ فیا للعجب۔ حقیقت یہ ہے کہ دہری اذان (ترجیع والی) اور اکہری اقامت (بلال والی) قطعا صحیح ہیں۔ احناف صرف تقلید کے زیر اثر ان سے منکر ہیں اور یہ تقلید کی قباحتوں میں سے ایک ہے۔