سنن النسائي - حدیث 622

كِتَابُ الْمَوَاقِيتِ كَيْفَ يُقْضَى الْفَائِتُ مِنْ الصَّلَاةِ صحيح أَخْبَرَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ بُرَيْدِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَأَسْرَيْنَا لَيْلَةً فَلَمَّا كَانَ فِي وَجْهِ الصُّبْحِ نَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَامَ وَنَامَ النَّاسُ فَلَمْ يَسْتَيْقِظْ إِلَّا بِالشَّمْسِ قَدْ طَلَعَتْ عَلَيْنَا فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُؤَذِّنَ فَأَذَّنَ ثُمَّ صَلَّى الرَّكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَمَرَهُ فَأَقَامَ فَصَلَّى بِالنَّاسِ ثُمَّ حَدَّثَنَا بِمَا هُوَ كَائِنٌ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 622

کتاب: اوقات نماز سے متعلق احکام و مسائل فوت شدہ نماز کی قضا کیسے ادا کی جائے؟ حضرت ابومریم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ ہم ساری رات چلتے رہے۔ جب صبح طلوع ہونے کو تھی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سواری سے اترے اور سوگئے اور لوگ بھی سوگئے۔ ہمیں اس وقت جاگ آئی جب سورج ہم پر طلوع ہوچکا تھا، چنانچہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مؤذن کو حکم دیا تو اس نے اذان کہی، پھر آپ نے فجر کی دو سنتیں پڑھیں، پھر آپ نے اسے حکم دیا تو اس نے اقامت کہی، پھر آپ نے لوگوں کو نماز پڑھائی، پھر ہمیں بیان کیا جو کچھ قیامت تک ہونے والا تھا۔
تشریح : (۱)باب کا مقصد یہ ہے کہ اگر مجموعی طور پر نماز رہ جائے، یعنی اذان ہو نہ جماعت تو قضا اذان اور جماعت کی صورت میں ہوگی جیسے کہ ادا ہوتی ہے، مگر یہ بات ذہن میں رہے کہ یہ صحرا کا واقعہ ہے جہاں متعلقین کے علاوہ کوئی اذان نہ سنتا تھا، اب جب کہ جگہ جگہ مساجد ہیں اور مساجد میں لاؤڈ سپیکر بھی ہیں تو اب قضا میں علانیہ اذان کہنا اور جماعت کروانا غلط فہمی اور مذاق کا سبب ہوگا، لہٰذا آبادی میں اگر ایسا ہوجائے تو دوسری مساجد (اسی آبادی یا اردگرد کی آبادیوں) کی اذان کافی ہوگی، ہاں، بغیر لاؤڈسپیکر اذان کہہ کر باجماعت نماز پڑھنا، اگر ممکن ہو تو یہ، بہتر ہے وگرنہ الگ الگ صرف تکبیر کہہ کر پڑھی جاسکتی ہے، الایہ کہ کوئی آبادی الگ تھلگ ہو، دیگر آبادیوں سے اس کا کوئی تعلق نہ ہو اور نہ وہاں کی اذان کی آواز دوسری آبادیوں میں سنی جاتی ہو تو وہاں اس حدیث پر عمل ہوسکتا ہے، یعنی تب اذان کہنا ضروری ہے۔ واللہ اعلم۔ موقع محل کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔ (۲)فجر کی سنتیں مؤکدہ ہیں، لہٰذا اگر رہ جائیں تو طلوع شمس سے پہلے یا بعد میں ان کی قضادی جائے۔ اگر فرض اور سنتیں دونوں رہ گئے ہوں تو دونوں کی قضا دی جائے۔ اس طرح دیگر نمازوں کے نوافل یا سنن وغیرہ کی بھی وقت کے بعد قضاد دی جاسکتی ہے، خواہ سونے کی وجہ سے رہ جائیں یا بھولنے سے جیسا کہ احادیث کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے، رہی ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی مسند احمد والی حدیث جس میں قضا دینے سے روکا گیا ہے تو وہ سنداً ضعیف ہے۔ واللہ اعلم۔ (۱)باب کا مقصد یہ ہے کہ اگر مجموعی طور پر نماز رہ جائے، یعنی اذان ہو نہ جماعت تو قضا اذان اور جماعت کی صورت میں ہوگی جیسے کہ ادا ہوتی ہے، مگر یہ بات ذہن میں رہے کہ یہ صحرا کا واقعہ ہے جہاں متعلقین کے علاوہ کوئی اذان نہ سنتا تھا، اب جب کہ جگہ جگہ مساجد ہیں اور مساجد میں لاؤڈ سپیکر بھی ہیں تو اب قضا میں علانیہ اذان کہنا اور جماعت کروانا غلط فہمی اور مذاق کا سبب ہوگا، لہٰذا آبادی میں اگر ایسا ہوجائے تو دوسری مساجد (اسی آبادی یا اردگرد کی آبادیوں) کی اذان کافی ہوگی، ہاں، بغیر لاؤڈسپیکر اذان کہہ کر باجماعت نماز پڑھنا، اگر ممکن ہو تو یہ، بہتر ہے وگرنہ الگ الگ صرف تکبیر کہہ کر پڑھی جاسکتی ہے، الایہ کہ کوئی آبادی الگ تھلگ ہو، دیگر آبادیوں سے اس کا کوئی تعلق نہ ہو اور نہ وہاں کی اذان کی آواز دوسری آبادیوں میں سنی جاتی ہو تو وہاں اس حدیث پر عمل ہوسکتا ہے، یعنی تب اذان کہنا ضروری ہے۔ واللہ اعلم۔ موقع محل کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔ (۲)فجر کی سنتیں مؤکدہ ہیں، لہٰذا اگر رہ جائیں تو طلوع شمس سے پہلے یا بعد میں ان کی قضادی جائے۔ اگر فرض اور سنتیں دونوں رہ گئے ہوں تو دونوں کی قضا دی جائے۔ اس طرح دیگر نمازوں کے نوافل یا سنن وغیرہ کی بھی وقت کے بعد قضاد دی جاسکتی ہے، خواہ سونے کی وجہ سے رہ جائیں یا بھولنے سے جیسا کہ احادیث کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے، رہی ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی مسند احمد والی حدیث جس میں قضا دینے سے روکا گیا ہے تو وہ سنداً ضعیف ہے۔ واللہ اعلم۔