سنن النسائي - حدیث 618

كِتَابُ الْمَوَاقِيتِ إِعَادَةُ مَنْ نَامَ عَنْ الصَّلَاةِ لِوَقْتِهَا مِنْ الْغَدِ صحيح أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَبَاحٍ عَنْ أَبِي قَتَادَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا نَامُوا عَنْ الصَّلَاةِ حَتَّى طَلَعَتْ الشَّمْسُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلْيُصَلِّهَا أَحَدُكُمْ مِنْ الْغَدِ لِوَقْتِهَا

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 618

کتاب: اوقات نماز سے متعلق احکام و مسائل جس نماز سے سویا رہا‘اگلے دن اس نماز کے وقت دوبارہ پڑھنا حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب صحابہ صبح کی نماز سے سوئے رہ گئے تھے حتیٰ کہ سورج طلوع ہوگیا تھا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ کل تم یہ نماز اس کے وقت پر پڑھنا۔
تشریح : اس روایت سے بعض علماء نے استدلال کیا ہے کہ اگر کوئی نماز قضا ہوگئی تو آج قضا ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اگلے دن اصل وقت پر دوبارہ قضا ادا کرنا ہوگی، مگر یہ استدلال کمزور ہے کیونکہ فوت شدہ نماز کی قضا ایک دفعہ ہی ہوگی۔ اس کی تائید دیگر عمومات اور دلائل سے ہوتی ہے۔ مثلاً: [فلیضلھا اذا ذکرھا] یعنی سونے یا بھول جانے کی صورت میں آپ نے یاد آنے پر صرف اسی نماز کو پڑھنے کا حکم دیا ہے مزید کچھ نہیں فرمایا۔ بعض روایات میں ہے: [لاکفارۃ لھا الا ذلک ] ’’اس کا صرف یہی کفارہ ہے۔‘‘ اس حدیث میں حصر ہے، یعنی مزید پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ پھر مزید غور کیا جائے تو یہ بات بھی ذہن میں آتی ہے کہ دن رات میں باقاعدہ صرف پانچ نمازیں ہی فرض ہیں، آئندہ روز اس کی دوبار قضا ادا کرنے سے تو چھ بن جائیں گی اور یہ عام مسلمہ اصول دین کے خلاف ہے، اس لیے لامحالہ ایسا مفہوم مراد لینا ہوگا کہ جس سے تمام دلائل میں تطبیق ہوجائے۔ مزید برآں یہ کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اگلے روز اسی نماز کی دوبارہ قضا ادا کرنے کی نفی کی ہے جیسا کہ درج ذیل ترجمۃ الباب سے ظاہر ہوتا ہے: [باب من نسی صلاۃ فلیصل اذا ذکرھا، ولا یعید الا تلک الصلاۃ]لہٰذا ان معروضات کی روشنی میں امام نسائی رحمہ اللہ کا ترجمۃ الباب میں بیان کردہ استدلال محل نظر ہے۔ رہا یہ کہ دوبارہ قضا کی جو صریح روایت آتی ہے جس میں آپ نے یہ حکم دیا: [فمن ادرک منکم صلاۃ الغداۃ من غد صالحا فلیقض معھا مثلھا] ’’لہٰذا جس نے تم میں سے آئندہ کل صبح کی نماز عافیت کی حالت میں پالی تو وہ اس کے ساتھ مزید ایسی ہی نماز ادا کرلے۔‘‘ (ضعیف سنن ابی داود للالبانی، حدیث:۴۳۸) تو وہ شاذ اور ناقابل حجت ہے۔ اس روایت کے صحیح معنی یہ ہیں کہ کل کو تم نماز وقت پر پڑھنا، آج کی طرح تاخیر نہ کردینا، یعنی لیٹ پڑھنے کی عادت نہیں ہونی چاہیے۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: (فتح الباری:۲؍۹۳) اس روایت سے بعض علماء نے استدلال کیا ہے کہ اگر کوئی نماز قضا ہوگئی تو آج قضا ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اگلے دن اصل وقت پر دوبارہ قضا ادا کرنا ہوگی، مگر یہ استدلال کمزور ہے کیونکہ فوت شدہ نماز کی قضا ایک دفعہ ہی ہوگی۔ اس کی تائید دیگر عمومات اور دلائل سے ہوتی ہے۔ مثلاً: [فلیضلھا اذا ذکرھا] یعنی سونے یا بھول جانے کی صورت میں آپ نے یاد آنے پر صرف اسی نماز کو پڑھنے کا حکم دیا ہے مزید کچھ نہیں فرمایا۔ بعض روایات میں ہے: [لاکفارۃ لھا الا ذلک ] ’’اس کا صرف یہی کفارہ ہے۔‘‘ اس حدیث میں حصر ہے، یعنی مزید پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ پھر مزید غور کیا جائے تو یہ بات بھی ذہن میں آتی ہے کہ دن رات میں باقاعدہ صرف پانچ نمازیں ہی فرض ہیں، آئندہ روز اس کی دوبار قضا ادا کرنے سے تو چھ بن جائیں گی اور یہ عام مسلمہ اصول دین کے خلاف ہے، اس لیے لامحالہ ایسا مفہوم مراد لینا ہوگا کہ جس سے تمام دلائل میں تطبیق ہوجائے۔ مزید برآں یہ کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اگلے روز اسی نماز کی دوبارہ قضا ادا کرنے کی نفی کی ہے جیسا کہ درج ذیل ترجمۃ الباب سے ظاہر ہوتا ہے: [باب من نسی صلاۃ فلیصل اذا ذکرھا، ولا یعید الا تلک الصلاۃ]لہٰذا ان معروضات کی روشنی میں امام نسائی رحمہ اللہ کا ترجمۃ الباب میں بیان کردہ استدلال محل نظر ہے۔ رہا یہ کہ دوبارہ قضا کی جو صریح روایت آتی ہے جس میں آپ نے یہ حکم دیا: [فمن ادرک منکم صلاۃ الغداۃ من غد صالحا فلیقض معھا مثلھا] ’’لہٰذا جس نے تم میں سے آئندہ کل صبح کی نماز عافیت کی حالت میں پالی تو وہ اس کے ساتھ مزید ایسی ہی نماز ادا کرلے۔‘‘ (ضعیف سنن ابی داود للالبانی، حدیث:۴۳۸) تو وہ شاذ اور ناقابل حجت ہے۔ اس روایت کے صحیح معنی یہ ہیں کہ کل کو تم نماز وقت پر پڑھنا، آج کی طرح تاخیر نہ کردینا، یعنی لیٹ پڑھنے کی عادت نہیں ہونی چاہیے۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: (فتح الباری:۲؍۹۳)