سنن النسائي - حدیث 609

كِتَابُ الْمَوَاقِيتِ الْجَمْعُ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ بِالْمُزْدَلِفَةِ صحيح أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ عُمَارَةَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ مَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَمَعَ بَيْنَ صَلَاتَيْنِ إِلَّا بِجَمْعٍ وَصَلَّى الصُّبْحَ يَوْمَئِذٍ قَبْلَ وَقْتِهَا

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 609

کتاب: اوقات نماز سے متعلق احکام و مسائل مزدلفہ میں مغرب اور عشاءکی نمازیں جمع کرنا حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی دو نمازیں جمع کرکے پڑھتے نہیں دیکھا مگر مزدلفہ میں۔ آپ نے اس دن صبح کی نماز (اپنے معمول کے) وقت سے پہلے پڑھی۔
تشریح : (۱)یہ عجیب بات ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مزدلفہ سے قبل عرفات میں ظہر اور عصر کو جمع کرچکے تھے۔ اس پر مطلع نہ ہونا اچنبھے کی بات ہے۔ لیکن انسان، انسان ہے، ان کے علم میں یہ بات نہ آئی ہوگی یا یہ ذہول اور نسیان کا نتیجہ ہوگا جو ہر انسان کو لاحق ہوسکتا ہے۔ علاوہ ازیں سفر میں دو نمازیں جمع کرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا۔ کثیر صحابہ سے آنے والی روایات میں اس کا ذکر ہے، لہٰذا ان کی نفی یہاں معتبر نہیں۔ پھر یہ اصول ہے کہ نفی پر اثبات مقدم ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے بھی اس نفی کا تعلق صرف ان کی ذات کی حد تک ہے کیونکہ دوسروں کے پاس مزید علم کی بات ہے، اس لیے اسے قبول کیا جائے گا۔ واللہ اعلم۔ (۲)’’وقت سے پہلے پڑھی۔‘‘ اس سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول کا وقت ہے کیونکہ عموماً طلوع فجر اور صلاۃ فجر کے درمیان وضو، غسل اور فجر کی سنتوں کا فاصلہ وہا کرتا تھا۔ اس دن آپ نے فجر کی نماز طلوع فجر کے ساتھ ہی پڑھ لی تاکہ وقوف کے لیے زیادہ وقت مل سکے۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں صراحتًا طلوع فجر کا ذکر ہے۔ دیکھیے: (صحیح البخاری، الحج، حدیث:۶۸۳، وصحیح مسلم، الحج، حدیث:۱۲۱۸) (۱)یہ عجیب بات ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مزدلفہ سے قبل عرفات میں ظہر اور عصر کو جمع کرچکے تھے۔ اس پر مطلع نہ ہونا اچنبھے کی بات ہے۔ لیکن انسان، انسان ہے، ان کے علم میں یہ بات نہ آئی ہوگی یا یہ ذہول اور نسیان کا نتیجہ ہوگا جو ہر انسان کو لاحق ہوسکتا ہے۔ علاوہ ازیں سفر میں دو نمازیں جمع کرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا۔ کثیر صحابہ سے آنے والی روایات میں اس کا ذکر ہے، لہٰذا ان کی نفی یہاں معتبر نہیں۔ پھر یہ اصول ہے کہ نفی پر اثبات مقدم ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے بھی اس نفی کا تعلق صرف ان کی ذات کی حد تک ہے کیونکہ دوسروں کے پاس مزید علم کی بات ہے، اس لیے اسے قبول کیا جائے گا۔ واللہ اعلم۔ (۲)’’وقت سے پہلے پڑھی۔‘‘ اس سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول کا وقت ہے کیونکہ عموماً طلوع فجر اور صلاۃ فجر کے درمیان وضو، غسل اور فجر کی سنتوں کا فاصلہ وہا کرتا تھا۔ اس دن آپ نے فجر کی نماز طلوع فجر کے ساتھ ہی پڑھ لی تاکہ وقوف کے لیے زیادہ وقت مل سکے۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں صراحتًا طلوع فجر کا ذکر ہے۔ دیکھیے: (صحیح البخاری، الحج، حدیث:۶۸۳، وصحیح مسلم، الحج، حدیث:۱۲۱۸)