سنن النسائي - حدیث 587

كِتَابُ الْمَوَاقِيتِ الْوَقْتُ الَّذِي يَجْمَعُ فِيهِ الْمُسَافِرُ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ صحيح أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ حَدَّثَنَا مُفَضَّلٌ عَنْ عُقَيْلٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا ارْتَحَلَ قَبْلَ أَنْ تَزِيغَ الشَّمْسُ أَخَّرَ الظُّهْرَ إِلَى وَقْتِ الْعَصْرِ ثُمَّ نَزَلَ فَجَمَعَ بَيْنَهُمَا فَإِنْ زَاغَتْ الشَّمْسُ قَبْلَ أَنْ يَرْتَحِلَ صَلَّى الظُّهْرَ ثُمَّ رَكِبَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 587

کتاب: اوقات نماز سے متعلق احکام و مسائل مسافر ظہر اور عصر کی نمازیں کس وقت اکٹھی کرے؟ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سورج ڈھلنے سے پہلے سفر شروع کرتے تو ظہر کی نماز کو عصر کے وقت تک مؤخر کرتے، پھر اترتے اور دونوں کو اکٹھا کرتے اور اگر سفر شروع کرنے سے قبل سورج ڈھل جاتا تو ظہر کی نماز پڑھ کر سواری فرماتے۔
تشریح : (۱)مسافر اگر ظہر اور عصر اور اسی طرح مغرب اور عشاء کو جمع کرنا چاہے تو اس کی تین صورتیں ہیں: ایک جمع تقدیم ہے، یعنی ظہر کی نماز کے ساتھ عصر کو یا مغرب کے ساتھ عشاء کو جمع کرلیا جائے۔ دوسری صورت ہے جمع تاخیر، یعنی ظہر کو مؤخر کرکے عصر کے ساتھ اور مغرب کو مؤخر کرکے عشاء کے ساتھ پڑھا جائے۔ تیسری صورت جمع صوری ہے، یعنی ظہر کی نماز کو اس کے آخری وقت میں اور عصر کو اس کے اول وقت میں، اسی طرح مغرب کو اس کے آخری وقت میں اور عشاء کو اول وقت میں پڑھا جائے۔ یہ تینوں صورتیں جائز ہیں، اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ساری ہی صورتیں ثابت ہیں۔ بنابریں پہلی دو صورتوں کا انکار کرکے صرف جمع صوری ہی پر اصرار کرنا، اس یسر (آسانی) کو ختم کرتا ہے جو شریعت کی طرف سے دی گئی ہے۔ (۲)مذکورہ حدیث کے بارے میں بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس میں جمع صوری کا بیان ہے لیکن الفاظ حدیث اس کی تائید نہیں کرتے۔ اس میں ظہر کو عصر کے وقت پڑھنے کا ذکر ہے تو اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ آپ نے جمع تاخیر کی ہے، یعنی ظہر کو عصر کےو قت میں عصر کے ساتھ پڑھا ہے اور اس سے بھی مزید تصریح کے ساتھ الفاظ آتے ہیں، فرمایا: [اخر الظہر الی ان یدخل وقت العصر] ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کو اس حد تک مؤخر کیا کہ عصر کا وقت داخل ہوگیا۔‘‘ دیکھیے: (صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، حدیث:۷۰۴) اسی طرح دیگر روایات میں آتا ہے کہ سورج ڈھلنے کے بعد آپ سفر کا آغاز فرماتے تو ظہر کے ساتھ عصر کی نماز بھی پڑھ لیتے (یعنی جمع تقدیم کر لیتے)۔ اس حدیث میں اختصار ہے جس کی وضاحت دوسری احادیث سے ہوجاتی ہے۔ اگلی احادیث میں ان ساری صورتوں کا بیان آرہا ہے، البتہ حج کے دوران عرفات میں ظہر اور عصر کو ظہر کے وقت میں پڑھنا متفق علیہ ہے اور یہ جمع تقدیم ہوگی۔ (صحیح مسلم، الحج، حدیث:۱۲۱۸) (۱)مسافر اگر ظہر اور عصر اور اسی طرح مغرب اور عشاء کو جمع کرنا چاہے تو اس کی تین صورتیں ہیں: ایک جمع تقدیم ہے، یعنی ظہر کی نماز کے ساتھ عصر کو یا مغرب کے ساتھ عشاء کو جمع کرلیا جائے۔ دوسری صورت ہے جمع تاخیر، یعنی ظہر کو مؤخر کرکے عصر کے ساتھ اور مغرب کو مؤخر کرکے عشاء کے ساتھ پڑھا جائے۔ تیسری صورت جمع صوری ہے، یعنی ظہر کی نماز کو اس کے آخری وقت میں اور عصر کو اس کے اول وقت میں، اسی طرح مغرب کو اس کے آخری وقت میں اور عشاء کو اول وقت میں پڑھا جائے۔ یہ تینوں صورتیں جائز ہیں، اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ساری ہی صورتیں ثابت ہیں۔ بنابریں پہلی دو صورتوں کا انکار کرکے صرف جمع صوری ہی پر اصرار کرنا، اس یسر (آسانی) کو ختم کرتا ہے جو شریعت کی طرف سے دی گئی ہے۔ (۲)مذکورہ حدیث کے بارے میں بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس میں جمع صوری کا بیان ہے لیکن الفاظ حدیث اس کی تائید نہیں کرتے۔ اس میں ظہر کو عصر کے وقت پڑھنے کا ذکر ہے تو اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ آپ نے جمع تاخیر کی ہے، یعنی ظہر کو عصر کےو قت میں عصر کے ساتھ پڑھا ہے اور اس سے بھی مزید تصریح کے ساتھ الفاظ آتے ہیں، فرمایا: [اخر الظہر الی ان یدخل وقت العصر] ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کو اس حد تک مؤخر کیا کہ عصر کا وقت داخل ہوگیا۔‘‘ دیکھیے: (صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، حدیث:۷۰۴) اسی طرح دیگر روایات میں آتا ہے کہ سورج ڈھلنے کے بعد آپ سفر کا آغاز فرماتے تو ظہر کے ساتھ عصر کی نماز بھی پڑھ لیتے (یعنی جمع تقدیم کر لیتے)۔ اس حدیث میں اختصار ہے جس کی وضاحت دوسری احادیث سے ہوجاتی ہے۔ اگلی احادیث میں ان ساری صورتوں کا بیان آرہا ہے، البتہ حج کے دوران عرفات میں ظہر اور عصر کو ظہر کے وقت میں پڑھنا متفق علیہ ہے اور یہ جمع تقدیم ہوگی۔ (صحیح مسلم، الحج، حدیث:۱۲۱۸)