سنن النسائي - حدیث 585

كِتَابُ الْمَوَاقِيتِ إِبَاحَةُ الصَّلَاةِ إِلَى أَنْ يُصَلِّيَ الصُّبْحَ صحيح أَخْبَرَنِي الْحَسَنُ بْنُ إِسْمَعِيلَ بْنِ سُلَيْمَانَ وَأَيَّوبُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَا حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ أَيُّوبُ حَدَّثَنَا وَقَالَ حَسَنٌ أَخْبَرَنِي شُعْبَةُ عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَاءٍ عَنْ يَزِيدَ بْنِ طَلْقٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْبَيْلَمَانِيِّ عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبَسَةَ قَالَ أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَنْ أَسْلَمَ مَعَكَ قَالَ حُرٌّ وَعَبْدٌ قُلْتُ هَلْ مِنْ سَاعَةٍ أَقْرَبُ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ أُخْرَى قَالَ نَعَمْ جَوْفُ اللَّيْلِ الْآخِرُ فَصَلِّ مَا بَدَا لَكَ حَتَّى تُصَلِّيَ الصُّبْحَ ثُمَّ انْتَهِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ وَمَا دَامَتْ وَقَالَ أَيُّوبُ فَمَا دَامَتْ كَأَنَّهَا حَجَفَةٌ حَتَّى تَنْتَشِرَ ثُمَّ صَلِّ مَا بَدَا لَكَ حَتَّى يَقُومَ الْعَمُودُ عَلَى ظِلِّهِ ثُمَّ انْتَهِ حَتَّى تَزُولَ الشَّمْسُ فَإِنَّ جَهَنَّمَ تُسْجَرُ نِصْفَ النَّهَارِ ثُمَّ صَلِّ مَا بَدَا لَكَ حَتَّى تُصَلِّيَ الْعَصْرَ ثُمَّ انْتَهِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ فَإِنَّهَا تَغْرُبُ بَيْنَ قَرْنَيْ شَيْطَانٍ وَتَطْلُعُ بَيْنَ قَرْنَيْ شَيْطَانٍ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 585

کتاب: اوقات نماز سے متعلق احکام و مسائل صبح کی نماز تک نفل نماز پڑھی جا سکتی ہے حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! (سب سے پہلے) آپ پر کون ایمان لایا؟ آپ نے فرمایا: ’’ایک آزاد (ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ) اور ایک غلام (حضرت بلال رضی اللہ عنہ)۔‘‘ میں نے کہا: کوئی وقت اللہ تعالیٰ کے ہاں دوسرے وقت سے زیادہ قرب والا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں، رات کا آخری نصف، لہٰذا تم نماز پڑھو جس قدر تم چاہو یہاں تک کہ صبح کی نماز پڑھو، پھر سورج طلوع ہونے تک رک جاؤ جب تک کہ وہ ڈھال کی طرح رہے۔ جب وہ پھیل جائے تو جس قدر چاہو نماز پڑھو حتیٰ کہ ستون اپنے سائے پر کھڑا ہوجائے۔ پھر رک جاؤ حتیٰ کہ سورج ڈھل جائے کیونکہ دوپہر کے وقت جہنم بھڑکایا جاتا ہے، پھر جس قدر چاہو نماز پڑھو حتیٰ کہ عصر کی نماز پڑھ لو، پھر رک جاؤ حتیٰ کہ سورج غروب ہوجائے کیونکہ وہ شیطان کے دوسینگوں کے درمیان طلوع و غروب ہوتا ہے۔‘‘
تشریح : (۱)محقق کتاب نے مذکورہ روایت کو سنداً ضعیف قرار دیا ہے اور اس کے بعد لکھا ہے کہ اس حدیث کے بعض حصے کے شاہد صحیح مسلم میں موجود ہیں جبکہ دیگر محققین نے انھی شواہد کی بنا پر اسے صحیح قرار دیا ہے، لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد کی بنا پر قابل عمل اور قابل حجت ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (اروا الغلیل: ۲؍۲۳۷، وصحیح سنن ابی داود (مفصل) للالبانی، رقم:۱۱۵۸، وسنن ابن ماجہ للدکتور بشار عواد، حدیث:۱۲۵۱) بنابریں بعض الفاظ کی ضروری وضاحت مناسب معلوم ہوتی ہے۔ ’’جب تک وہ ڈھال کی طرح رہے۔‘‘ یعنی سورج کی ٹکیا صاف نظر آئے، نظر نہ چندھیائے۔ (۲)پھیل جانے سے مراد ہے، شعاعوں کا پھیلنا کہ اس کی طرف دیکھا نہ جاسکے۔ (۳)ستون کے سائے پر کھڑا ہونے کا مطلب ہے: سورج سر پر آجائے اور سایہ ختم ہوجائے۔ مکہ مکرمہ میں سخت گرمیوں میں ایسا ہوجاتا ہے۔ (۴)’’یہاں تک کہ صبح کی نماز پڑھ لو۔‘‘ اس سے مراد طلوع فجر ہے یا صبح کی نماز کے بعد طلوع شمس تک کا درمیانی وقت؟ اس میں اختلاف ہے۔اگرچہ بعض روایات کے ظاہر الفاظ سے واضح ہوتا ہے کہ اس سے طلوع فجر کے بعد کا وقت ہے لیکن اس میں اور اس مفہوم کی دیگر صحیح روایات میں اجمال ہے۔ تفصیلی روایات سے یہ ابہام رفع ہو جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ وقت صبح کی نماز کے بعد کا ہے جیسا کہ امام شافعی رحمہ اللہ وغیرہ ما کوقف ہے اور اس کی دلیل اسی حدیث کے مندرجہ ذیل الفاظ ہیں: [فصل ما بدالک حتی تصلی الصبح] یا طلوع فجر کے بعد عام نوافل کی ممانعت پر دلالت کرنے والی روایات کو نہی تنزیہہ پر محمول کرلیا جائے، اگرچہ بعض نے ممانعت کی ان تمام روایات کو ناقابل حجت قرار دیا ہے اور اس کے لیے یہی مذکورہ روایت قرینہ صارفہ بن جائے، بہرحال تب بھی جواز ہی نکلتا ہے۔ امام نسائی رحمہ اللہ کا ترجمۃ الباب سے یہی رجحان معلوم ہوتا ہے۔ یہ تو ہے جواز کا مسئلہ لیکن افضل یہ ہے کہ بلاضرورت و سبب فجر کی ہلکی دو سنتوں کے علاوہ کوئی اور نفل نہ پڑھے جائیں جیسا کہ حدیث:۵۸۴ سے ظاہر ہوتا ہے۔ واللہ اعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (شرح سنن النسائی للإتیوبي: ۷؍۲۲۲، ۲۲۳) (۵)سورج کا شیطان کے سینگوں کے درمیان طلوع ہونے کا مطلب پہلے واضح کیا جاچکا ہے۔ دیکھیے: (حدیث:۵۶۰) (۱)محقق کتاب نے مذکورہ روایت کو سنداً ضعیف قرار دیا ہے اور اس کے بعد لکھا ہے کہ اس حدیث کے بعض حصے کے شاہد صحیح مسلم میں موجود ہیں جبکہ دیگر محققین نے انھی شواہد کی بنا پر اسے صحیح قرار دیا ہے، لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد کی بنا پر قابل عمل اور قابل حجت ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (اروا الغلیل: ۲؍۲۳۷، وصحیح سنن ابی داود (مفصل) للالبانی، رقم:۱۱۵۸، وسنن ابن ماجہ للدکتور بشار عواد، حدیث:۱۲۵۱) بنابریں بعض الفاظ کی ضروری وضاحت مناسب معلوم ہوتی ہے۔ ’’جب تک وہ ڈھال کی طرح رہے۔‘‘ یعنی سورج کی ٹکیا صاف نظر آئے، نظر نہ چندھیائے۔ (۲)پھیل جانے سے مراد ہے، شعاعوں کا پھیلنا کہ اس کی طرف دیکھا نہ جاسکے۔ (۳)ستون کے سائے پر کھڑا ہونے کا مطلب ہے: سورج سر پر آجائے اور سایہ ختم ہوجائے۔ مکہ مکرمہ میں سخت گرمیوں میں ایسا ہوجاتا ہے۔ (۴)’’یہاں تک کہ صبح کی نماز پڑھ لو۔‘‘ اس سے مراد طلوع فجر ہے یا صبح کی نماز کے بعد طلوع شمس تک کا درمیانی وقت؟ اس میں اختلاف ہے۔اگرچہ بعض روایات کے ظاہر الفاظ سے واضح ہوتا ہے کہ اس سے طلوع فجر کے بعد کا وقت ہے لیکن اس میں اور اس مفہوم کی دیگر صحیح روایات میں اجمال ہے۔ تفصیلی روایات سے یہ ابہام رفع ہو جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ وقت صبح کی نماز کے بعد کا ہے جیسا کہ امام شافعی رحمہ اللہ وغیرہ ما کوقف ہے اور اس کی دلیل اسی حدیث کے مندرجہ ذیل الفاظ ہیں: [فصل ما بدالک حتی تصلی الصبح] یا طلوع فجر کے بعد عام نوافل کی ممانعت پر دلالت کرنے والی روایات کو نہی تنزیہہ پر محمول کرلیا جائے، اگرچہ بعض نے ممانعت کی ان تمام روایات کو ناقابل حجت قرار دیا ہے اور اس کے لیے یہی مذکورہ روایت قرینہ صارفہ بن جائے، بہرحال تب بھی جواز ہی نکلتا ہے۔ امام نسائی رحمہ اللہ کا ترجمۃ الباب سے یہی رجحان معلوم ہوتا ہے۔ یہ تو ہے جواز کا مسئلہ لیکن افضل یہ ہے کہ بلاضرورت و سبب فجر کی ہلکی دو سنتوں کے علاوہ کوئی اور نفل نہ پڑھے جائیں جیسا کہ حدیث:۵۸۴ سے ظاہر ہوتا ہے۔ واللہ اعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (شرح سنن النسائی للإتیوبي: ۷؍۲۲۲، ۲۲۳) (۵)سورج کا شیطان کے سینگوں کے درمیان طلوع ہونے کا مطلب پہلے واضح کیا جاچکا ہے۔ دیکھیے: (حدیث:۵۶۰)