سنن النسائي - حدیث 583

كِتَابُ الْمَوَاقِيتِ الرُّخْصَةُ فِي الصَّلَاةِ قَبْلَ الْمَغْرِبِ صحيح أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُفَيْلٍ قَالَ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عِيسَى قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْقَاسِمِ قَالَ حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ مُضَرَ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ أَنَّ أَبَا الْخَيْرِ حَدَّثَهُ أَنَّ أَبَا تَمِيمٍ الْجَيْشَانِيَّ قَامَ لِيَرْكَعَ رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْمَغْرِبِ فَقُلْتُ لِعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ انْظُرْ إِلَى هَذَا أَيَّ صَلَاةٍ يُصَلِّي فَالْتَفَتَ إِلَيْهِ فَرَآهُ فَقَالَ هَذِهِ صَلَاةٌ كُنَّا نُصَلِّيهَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 583

کتاب: اوقات نماز سے متعلق احکام و مسائل (نماز)مغرب سے پہلے نماز پڑھنے کی رخصت ابوالخیر سے روایت ہے کہ حضرت ابوتمیم جیشانی مغرب (کی نماز) سے پہلے دو رکعتیں پڑھنے کے لیے اٹھے۔ میں نے حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے کہا: انھیں دیکھیے یہ کون سی نماز پڑھ رہے ہیں؟ انھوں (عقبہ) نے ان کی طرف توجہ فرمائی تو انھیں (نماز پڑھتے) دیکھا تو انھوں نے فرمایا کہ ہم یہ نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانۂ مبارک میں پڑھا کرتے تھے۔
تشریح : (۱)ان دورکعتوں کو نماز مغرب سے پہلے والی سنتیں کہا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی رغبت دلایا کرتے تھے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم انھیں کثرت سے پڑھا کرتے تھے مگر وقت کم ہونے کی وجہ سے آہستہ آہستہ متروک ہوگئیں، اس لیے ابوالخیر کو تعجب ہوا۔ اللہ تعالیٰ تروتازہ رکھے محدثین اور اہل حدیث کو جو متروک سنتوں کو زندہ کرتے ہیں۔ احناف بلاوجہ ان سنتوں کے خلاف ہیں کہ ان کے پڑھنے سے نماز مؤخر ہوجائے گی، حالانکہ دو ہلکی رکعتوں سے کیا فرق پڑتا ہے؟ بلکہ تکثیر جماعت کا فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے: [بین کل اذانین صلاۃ] (صحیح البخاری، الاذان، حدیث:۶۲۴، وصحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، حدیث:۸۳۸) ’’ہر اذان اور اقامت کے درمیان نماز ہے۔‘‘ اور فرمایا: [صلوا قبل صلاۃ المغرب] (صحیح البخاری، التھجد، حدیث:۱۱۸۳) ’’نماز مغرب سے پہلے نماز پڑھو۔‘‘ یہ صحیح بخاری کی روایت ہے اور کیا چاہیے؟ مزیدتفصیل کے لیے اسی کتاب کا ابتدائیہ دیکھیے۔ (۱)ان دورکعتوں کو نماز مغرب سے پہلے والی سنتیں کہا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی رغبت دلایا کرتے تھے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم انھیں کثرت سے پڑھا کرتے تھے مگر وقت کم ہونے کی وجہ سے آہستہ آہستہ متروک ہوگئیں، اس لیے ابوالخیر کو تعجب ہوا۔ اللہ تعالیٰ تروتازہ رکھے محدثین اور اہل حدیث کو جو متروک سنتوں کو زندہ کرتے ہیں۔ احناف بلاوجہ ان سنتوں کے خلاف ہیں کہ ان کے پڑھنے سے نماز مؤخر ہوجائے گی، حالانکہ دو ہلکی رکعتوں سے کیا فرق پڑتا ہے؟ بلکہ تکثیر جماعت کا فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے: [بین کل اذانین صلاۃ] (صحیح البخاری، الاذان، حدیث:۶۲۴، وصحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، حدیث:۸۳۸) ’’ہر اذان اور اقامت کے درمیان نماز ہے۔‘‘ اور فرمایا: [صلوا قبل صلاۃ المغرب] (صحیح البخاری، التھجد، حدیث:۱۱۸۳) ’’نماز مغرب سے پہلے نماز پڑھو۔‘‘ یہ صحیح بخاری کی روایت ہے اور کیا چاہیے؟ مزیدتفصیل کے لیے اسی کتاب کا ابتدائیہ دیکھیے۔