سنن النسائي - حدیث 582

كِتَابُ الْمَوَاقِيتِ الرُّخْصَةُ فِي الصَّلَاةِ قَبْلَ غُرُوبِ الشَّمْسِ صحيح الإسناد أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ قَالَ أَنْبَأَنَا أَبِي قَالَ حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ حُدَيْرٍ قَالَ سَأَلْتُ لَاحِقًا عَنْ الرَّكْعَتَيْنِ قَبْلَ غُرُوبِ الشَّمْسِ فَقَالَ كَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ يُصَلِّيهِمَا فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ مُعَاوِيَةُ مَا هَاتَانِ الرَّكْعَتَانِ عِنْدَ غُرُوبِ الشَّمْسِ فَاضْطَرَّ الْحَدِيثَ إِلَى أُمِّ سَلَمَةَ فَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْعَصْرِ فَشُغِلَ عَنْهُمَا فَرَكَعَهُمَا حِينَ غَابَتْ الشَّمْسُ فَلَمْ أَرَهُ يُصَلِّيهِمَا قَبْلُ وَلَا بَعْدُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 582

کتاب: اوقات نماز سے متعلق احکام و مسائل غروب شمس سے قبل نماز کی رخصت حضرت عمران بن حدیر نے حضرت لاحق سے غروب شمس سے قبل کی دو رکعتوں کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا: حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما یہ دو رکعتیں پڑھا کرتے تھے تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے انھیں پیغام بھیجا کہ غروب آفتاب کے وقت یہ دو رکعتیں کیسی ہیں؟ بات حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا تک پہنچی تو انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دو رکعتیں عصر سے پہلے پڑھا کرتے تھے۔ (ایک دن) آپ مصروفیت کی بنا پر نہ پڑھ سکے تو آپ نے غروب شمس کے وقت (عصر کے بعد) یہ دو رکعتیں پڑھ لیں۔ میں نے اس دن کے سوا کبھی آپ کو یہ دو رکعتیں پڑھتے نہیں دیکھا۔ اس سے پہلے، نہ بعد۔
تشریح : (۱)[فاضطر الحدیث الی ام سلمۃ] ’’بات ام سلمہ رضی اللہ عنہا تک پہنچی۔‘‘ یہ معنی لفظ ’’الحدیث‘‘ کو مرفوع پڑھنے کی صورت میں ہیں۔ جب اسے منصوب پڑھیں تو معنی یہ ہوں گے کہ حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہا نے یہ بات ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی طرف منسوب کی یا انھیں ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کا سہارا لینا پڑا یا ان سے اس بارے میں بات کرنی پڑی وغیرہ۔ (۲)اس روایت سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ رکعتیں وہ نہیں ہیں جو آپ عصر کے بعد بالدوام ادا فرمایا کرتے تھے جیسا کہ حدیث کے ان آخری الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے: ’’میں نے اس دن کے سوا کبھی آپ کو یہ دو رکعتیں پڑھتے نہیں دیکھا، اس سے پہلے، نہ بعد۔‘‘ بلکہ یہ دو رکعتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی اور دن غروب شمس سے قبل ادا فرمائی ہوں گی جو عصر کی نماز کی، عصر سے قبل کی دو رکعتیں ہوسکتی ہیں۔ اور یہ بھی احتمال ہے کہ یہ نفس وہی دو رکعتیں ہوں جو آپ عصر کے بعد باقاعدہ پڑھا کرتے تھے اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا بعد میں ان کی ادائیگی کی نفی کرنا ان کے علم کی حد تک ہے، اس سے نفس مسئلے کی نفی نہیں ہوتی۔ لیکن زیادہ صحیح پہلی بات ہی معلوم ہوتی ہے۔ مزید دیکھیے: (شرح سنن النسائی للإتیوبي: ۷؍۲۱۲) کیونکہ اس کی تائید حضرت علی رضی اللہ عنہ کی گزشتہ حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں سورج کے روشن اور چمک دار رہنے تک تمام کی اجازت ہے، لہٰذا ابن زبیر رضی اللہ عنہما کا بعد میں ان دورکعتوں کو باقاعدہ اس وقت میں ادا کرنا ان کا اپنا اجتہاد ہی معلوم ہوتا ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو عذر کی بنا پر ادا کی ہوں گی۔ واللہ اعلم۔ (۱)[فاضطر الحدیث الی ام سلمۃ] ’’بات ام سلمہ رضی اللہ عنہا تک پہنچی۔‘‘ یہ معنی لفظ ’’الحدیث‘‘ کو مرفوع پڑھنے کی صورت میں ہیں۔ جب اسے منصوب پڑھیں تو معنی یہ ہوں گے کہ حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہا نے یہ بات ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی طرف منسوب کی یا انھیں ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کا سہارا لینا پڑا یا ان سے اس بارے میں بات کرنی پڑی وغیرہ۔ (۲)اس روایت سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ رکعتیں وہ نہیں ہیں جو آپ عصر کے بعد بالدوام ادا فرمایا کرتے تھے جیسا کہ حدیث کے ان آخری الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے: ’’میں نے اس دن کے سوا کبھی آپ کو یہ دو رکعتیں پڑھتے نہیں دیکھا، اس سے پہلے، نہ بعد۔‘‘ بلکہ یہ دو رکعتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی اور دن غروب شمس سے قبل ادا فرمائی ہوں گی جو عصر کی نماز کی، عصر سے قبل کی دو رکعتیں ہوسکتی ہیں۔ اور یہ بھی احتمال ہے کہ یہ نفس وہی دو رکعتیں ہوں جو آپ عصر کے بعد باقاعدہ پڑھا کرتے تھے اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا بعد میں ان کی ادائیگی کی نفی کرنا ان کے علم کی حد تک ہے، اس سے نفس مسئلے کی نفی نہیں ہوتی۔ لیکن زیادہ صحیح پہلی بات ہی معلوم ہوتی ہے۔ مزید دیکھیے: (شرح سنن النسائی للإتیوبي: ۷؍۲۱۲) کیونکہ اس کی تائید حضرت علی رضی اللہ عنہ کی گزشتہ حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں سورج کے روشن اور چمک دار رہنے تک تمام کی اجازت ہے، لہٰذا ابن زبیر رضی اللہ عنہما کا بعد میں ان دورکعتوں کو باقاعدہ اس وقت میں ادا کرنا ان کا اپنا اجتہاد ہی معلوم ہوتا ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو عذر کی بنا پر ادا کی ہوں گی۔ واللہ اعلم۔