سنن النسائي - حدیث 58

ذِكْرُ الْفِطْرَةِ بَاب الْمَاءِ الدَّائِمِ صحيح أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ عَنْ يَحْيَى بْنِ عَتِيقٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَبُولَنَّ أَحَدُكُمْ فِي الْمَاءِ الدَّائِمِ ثُمَّ يَغْتَسِلُ مِنْهُ قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ كَانَ يَعْقُوبُ لَا يُحَدِّثُ بِهَذَا الْحَدِيثِ إِلَّا بِدِينَارٍ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 58

کتاب: امور فطرت کا بیان کھڑے پانی کا حکم حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی ٹھہرے پانی میں بالکل پیشاب نہ کرے (ہوسکتا ہے) کہ پھر بعد میں اس سے غسل کرے۔‘‘ ابو عبدالرحمٰن (امام نسائی) رحمہ اللہ نے فرمایا: (میرے استاذ) یعقوب بن ابراہیم یہ حدیث دینار لیے بغیر بیان نہیں کرتے تھے۔
تشریح : تعلیم حدیث پر اجرت لینے کے بارے میں اہل علم میں اختلاف ہے۔ بعض کے نزدیک اجرت لینا جائز نہیں اور بعض اسے جائز سمجھتے ہیں۔ خصوصاً جب محدث تدریس حدیث کے علاوہ کوئی دوسرا کام نہ کرے۔ یعقوب دو رقی کے نزدیک اس پر اجرت لینا جائز ہے، اس لیے وہ یہ حدیث بیان کرنے پر اجرت لیتے تھے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: [ان احق ما أخذتم علیہ اجرا کتاب اللہ] ’’بے شک جن چیزوں پر تم اجرت لے سکتے ہو، ان میں سب سے زیادہ اس کی مستحق اللہ کی کتاب ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الطب، حدیث: ۵۷۳۷) سے بھی اس کا جواز ثابت ہوتا ہے، لہٰذا ضرورت کے پیش نظر تدریس حدیث پر اجرت لینے میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن بلاضرورت اور کشائش کے باوجود اس کی حرص و طمع رکھنا اخلاص کے منافی ہے، لہٰذا اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ واللہ أعلم۔ تعلیم حدیث پر اجرت لینے کے بارے میں اہل علم میں اختلاف ہے۔ بعض کے نزدیک اجرت لینا جائز نہیں اور بعض اسے جائز سمجھتے ہیں۔ خصوصاً جب محدث تدریس حدیث کے علاوہ کوئی دوسرا کام نہ کرے۔ یعقوب دو رقی کے نزدیک اس پر اجرت لینا جائز ہے، اس لیے وہ یہ حدیث بیان کرنے پر اجرت لیتے تھے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: [ان احق ما أخذتم علیہ اجرا کتاب اللہ] ’’بے شک جن چیزوں پر تم اجرت لے سکتے ہو، ان میں سب سے زیادہ اس کی مستحق اللہ کی کتاب ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الطب، حدیث: ۵۷۳۷) سے بھی اس کا جواز ثابت ہوتا ہے، لہٰذا ضرورت کے پیش نظر تدریس حدیث پر اجرت لینے میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن بلاضرورت اور کشائش کے باوجود اس کی حرص و طمع رکھنا اخلاص کے منافی ہے، لہٰذا اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ واللہ أعلم۔