سنن النسائي - حدیث 579

كِتَابُ الْمَوَاقِيتِ الرُّخْصَةُ فِي الصَّلَاةِ بَعْدَ الْعَصْرِ صحيح أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي حَرْمَلَةَ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ عَنْ السَّجْدَتَيْنِ اللَّتَيْنِ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّيهِمَا بَعْدَ الْعَصْرِ فَقَالَتْ إِنَّهُ كَانَ يُصَلِّيهِمَا قَبْلَ الْعَصْرِ ثُمَّ إِنَّهُ شُغِلَ عَنْهُمَا أَوْ نَسِيَهُمَا فَصَلَّاهُمَا بَعْدَ الْعَصْرِ وَكَانَ إِذَا صَلَّى صَلَاةً أَثْبَتَهَا

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 579

کتاب: اوقات نماز سے متعلق احکام و مسائل عصر کے بعد نماز کی رخصت حضرت ابوسلمہ سے روایت ہے کہ انھوں (ابوسلمہ) نے حضرت عائشہ رضی اللہ انہا سے ان دورکعات کے بارے میں پوچھا جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم عصر کے بعد پڑھا کرتے تھے۔ تو انھوں نے فرمایا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ دو رکعتیں عصر سے پہلے پڑھا کرتے تھے۔ پھر ایک دن کسی مصروفیت میں آپ سے یہ دورکعت رہ گئیں یا آپ بھول گئے تو آپ نے عصر کے بعد انھیں پڑھا۔ اور آپ جب کوئی نماز ایک دفعہ پڑھ لیتے تو اس پر پابندی فرماتے تھے۔
تشریح : عصر کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو رکعت پرھنے کی یہ توجیہ ہے کہ ایک دن آپ کی ظہر کے بعد والی سنتیں مصروفیت کی وجہ سے رہ گئیں، وہ ادا فرمائی تھیں اور بعدازاں اپنی عادت طیبہ کے مطابق اس پر دوام فرمایا۔ یہ حدیث بھی ان حضرات کی دلیل ہے جو کہتے ہیں کہ ممنوعہ اوقات میں کوئی بھی سببی نماز پڑھی جاسکتی ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی دو رکعتوں کی عصر کے بعد قضا ادا کی۔ اور مسند احمد کی روایت کے آخر میں جو یہ اضافہ منقول ہے: [افنقضیھما اذا فاتتا؟ قال: (رلا)] ’’کیا ہم بھی ان کی قضا ادا کرلیا کریں جب یہ دو رکعتیں رہ جایا کریں تو فرمایا: ’’نہیں۔‘‘ سنداً ضعیف اور ناقابل حجت ہے۔ دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ، مسندالامام احمد: ۴۴؍۲۷۷) لہٰذا رہ جانے والی نماز، عصر کے بعد ادا کی جاسکتی ہے۔ یہ صرف آپ ہی کی خصوصیت نہیں ہے کیونکہ مذکورہ الفاظ ضعیف ہیں، مزید برآن یہ کہ جب تک سورج روشن اور چمک دار ہو تو مطلقاً نوافل بھی پڑھے جاسکتے ہیں جیسا کہ پیچھے تفصیل گزر چکی ہے۔ واللہ اعلم۔ عصر کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو رکعت پرھنے کی یہ توجیہ ہے کہ ایک دن آپ کی ظہر کے بعد والی سنتیں مصروفیت کی وجہ سے رہ گئیں، وہ ادا فرمائی تھیں اور بعدازاں اپنی عادت طیبہ کے مطابق اس پر دوام فرمایا۔ یہ حدیث بھی ان حضرات کی دلیل ہے جو کہتے ہیں کہ ممنوعہ اوقات میں کوئی بھی سببی نماز پڑھی جاسکتی ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی دو رکعتوں کی عصر کے بعد قضا ادا کی۔ اور مسند احمد کی روایت کے آخر میں جو یہ اضافہ منقول ہے: [افنقضیھما اذا فاتتا؟ قال: (رلا)] ’’کیا ہم بھی ان کی قضا ادا کرلیا کریں جب یہ دو رکعتیں رہ جایا کریں تو فرمایا: ’’نہیں۔‘‘ سنداً ضعیف اور ناقابل حجت ہے۔ دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ، مسندالامام احمد: ۴۴؍۲۷۷) لہٰذا رہ جانے والی نماز، عصر کے بعد ادا کی جاسکتی ہے۔ یہ صرف آپ ہی کی خصوصیت نہیں ہے کیونکہ مذکورہ الفاظ ضعیف ہیں، مزید برآن یہ کہ جب تک سورج روشن اور چمک دار ہو تو مطلقاً نوافل بھی پڑھے جاسکتے ہیں جیسا کہ پیچھے تفصیل گزر چکی ہے۔ واللہ اعلم۔