كِتَابُ الْأَشْرِبَةِ ذِكْرُ الْأَشْرِبَةِ الْمُبَاحَةِ صحيح الإسناد مقطوع أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ أَنْبَأَنَا جَرِيرٌ قَالَ كَانَ ابْنُ شُبْرُمَةَ لَا يَشْرَبُ إِلَّا الْمَاءَ وَاللَّبَنَ
کتاب: مشروبات سے متعلق احکام و مسائل
مباح اور جائز شروبات کابیان
حضرت جریر نے فرمایا حضرت ابن شبرمہ پانی اور دودھ کے علاوہ کوئی مشروب نہیں پیتے تھے۔
تشریح :
1۔ مقصود نبیذ کی نفی ہے کیونکہ اس میں نشے کا امکان ہوتا ہے اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ کوئی مشکوک مشروب پیئیں۔یہ ان کا کمال تقویٰ ہے نیز اس سے معلوم ہوا کہ حضرت ابن شبرمہ نبیذ کو جب اس میں نشہ ہو جائز نہیں سمجھتے لہذا روایت 5753 میں حضرت ابراہیم نخعی کے بارے میں ان کے الفاظ اللہ تعالی حجرت ابراہیم پر رحم فرمائے تحسین کے طور پر نہیں بلکہ افسوس کے طور پر ہیں کیونکہ ان سے ایسے نبیذ کا جواز منقول ہے۔
2۔حضرت ا بن شبرمہ ؒ کوفہ کے قاضی اورعادل وثقہ شخص تھے مگر ان کے حافظے میں کچھ کمی تھی جس کی بنا پر ان کو کمزور بھی کہا گیا۔قاضی ہونے کے ساتھ ساتھ کوفہ کے معتبر فقیہ بھی تھے اور انتہائی پرہیزگار عابدوزاہد بھی۔رحمة الله رحمة واسعة۔
3۔حضرت اما م ابو عبدالرحمن احمد بن شعیب نسائیؒ نے اپنی کتاب کو تقویٰ اور ورع کے مضمون پر ختم فرمایا کہ علم سے مقصود تقویٰ ہے۔(انما يخشي الله من عباده العلمآء)(فاطر٣٥ ٢٨) تقوی نہ ہو تو مسلم بے کار ہے۔یہ ختم کتاب کا بہترین انداز ہے۔اللہ تعالی ہمارا خاتمہ بھی ایمان اور تقویٰ پر فرمائے۔آمین۔
مولائے رحیم و کریم کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ یہ علمی کام جو ربیع الاول کے مہینے میں شروع ہوا تھا۔ڈیڑھ سال کے عرصے میں رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں جو کہ نزول قرآن کا مہینہ ہے میں پایہ تکمیل کو پہنچا۔اللہ تعالیٰ کے اس فضل واحسان پر میں جس قدر بھی شکر ادا کروں کم ہے اور مجھ جیسا عاجز اور بے پایہ شخص تو شکر ادا کرنے کے بھی اہل نہیں۔
ہزار بار بشویم دہانم ز عرق گلاب
نام تو گفتن ہنوز بے ادبی ست
لا احصی ثناء علیک انت کما اثنیت علی نفسک
1۔ مقصود نبیذ کی نفی ہے کیونکہ اس میں نشے کا امکان ہوتا ہے اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ کوئی مشکوک مشروب پیئیں۔یہ ان کا کمال تقویٰ ہے نیز اس سے معلوم ہوا کہ حضرت ابن شبرمہ نبیذ کو جب اس میں نشہ ہو جائز نہیں سمجھتے لہذا روایت 5753 میں حضرت ابراہیم نخعی کے بارے میں ان کے الفاظ اللہ تعالی حجرت ابراہیم پر رحم فرمائے تحسین کے طور پر نہیں بلکہ افسوس کے طور پر ہیں کیونکہ ان سے ایسے نبیذ کا جواز منقول ہے۔
2۔حضرت ا بن شبرمہ ؒ کوفہ کے قاضی اورعادل وثقہ شخص تھے مگر ان کے حافظے میں کچھ کمی تھی جس کی بنا پر ان کو کمزور بھی کہا گیا۔قاضی ہونے کے ساتھ ساتھ کوفہ کے معتبر فقیہ بھی تھے اور انتہائی پرہیزگار عابدوزاہد بھی۔رحمة الله رحمة واسعة۔
3۔حضرت اما م ابو عبدالرحمن احمد بن شعیب نسائیؒ نے اپنی کتاب کو تقویٰ اور ورع کے مضمون پر ختم فرمایا کہ علم سے مقصود تقویٰ ہے۔(انما يخشي الله من عباده العلمآء)(فاطر٣٥ ٢٨) تقوی نہ ہو تو مسلم بے کار ہے۔یہ ختم کتاب کا بہترین انداز ہے۔اللہ تعالی ہمارا خاتمہ بھی ایمان اور تقویٰ پر فرمائے۔آمین۔
مولائے رحیم و کریم کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ یہ علمی کام جو ربیع الاول کے مہینے میں شروع ہوا تھا۔ڈیڑھ سال کے عرصے میں رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں جو کہ نزول قرآن کا مہینہ ہے میں پایہ تکمیل کو پہنچا۔اللہ تعالیٰ کے اس فضل واحسان پر میں جس قدر بھی شکر ادا کروں کم ہے اور مجھ جیسا عاجز اور بے پایہ شخص تو شکر ادا کرنے کے بھی اہل نہیں۔
ہزار بار بشویم دہانم ز عرق گلاب
نام تو گفتن ہنوز بے ادبی ست
لا احصی ثناء علیک انت کما اثنیت علی نفسک