سنن النسائي - حدیث 5711

كِتَابُ الْأَشْرِبَةِ ذِكْرُ الْأَخْبَارِ الَّتِي اعْتَلَّ بِهَا مَنْ أَبَاحَ شَرَابَ السُّكْرِ صحيح الإسناد قَالَ الْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ عَنْ ابْنِ الْقَاسِمِ قَالَ حَدَّثَنِي مَالِكٌ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ خَرَجَ عَلَيْهِمْ فَقَالَ إِنِّي وَجَدْتُ مِنْ فُلَانٍ رِيحَ شَرَابٍ فَزَعَمَ أَنَّهُ شَرَابُ الطِّلَاءِ وَأَنَا سَائِلٌ عَمَّا شَرِبَ فَإِنْ كَانَ مُسْكِرًا جَلَدْتُهُ فَجَلَدَهُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ الْحَدَّ تَامًّا

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 5711

کتاب: مشروبات سے متعلق احکام و مسائل وہ احادیث جن سے بعض لوگوں نے نشہ آور مشروب پینے کا جواز نکالا ہے حضرت سائب بن یزید نے بیان فرمایا کہ ایک دفعہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ میں نے فلاں شخص سے شراب کی بو محسوس کی ہے لیکن وہ کہتا ہے کہ یہ طلاء کی شراب ہے میں اس کے بارے میں پوچھ گچھ کروں گا۔اگر وہ طاء نشہ آور ثابت ہوا تو میں اس پر حد لگاؤں گا ۔پھر(تحقیق کے بعد) حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اس پر پوری حد لگا ئی۔
تشریح : 1۔اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تو ہر نشہ آور مشروب کو حرام اور قابل حد سمجھتے تھے حالانکہ یہ مشروب احناف کی تعریف کے مطابق خمر نہیں پھر بھی آپ نے اس کے پینے پر حد نافذ فرمادی حالانکہ پینے والے کو نشہ نہیں آتا تھا کیونکہ اگر اسے نشہ آیا ہوتا تو تحقیق کی ضرورت ہی نہ تھی کہ وہ مشروب نشے والا تھا یا نہیں۔ معلوم ہوا کہ ان کیے نزدیک نشہ آور مشروب حرام اور قابل حد ہے قلیل ہو یا کثیر ۔نشہ آئے یا نہ آئے لہذا ان کی طرف ایسے مشروب کے پینے کی نسبت صحیح نہیں ہوسکتی ۔ 2۔ فلاں شخص یہ ان کے بیٹے عبیداللہ بن عمر تھے یہ صحابی نہیں تھے۔صحیح بخاری میں صراحت موجود ہے۔ 3۔ پوری حد لگائی کوئی رعایت نہیں فرمائی۔رضي الله عنه وارضاه۔ 4۔ طلاء ان انگور کے جوس کو آگ پرخشک کیا جاتا ہے۔جب وہ دو تہائی خشک ہوجاتا ہےاور لئی جیسا بن جاتا ہے تو اسے استعمال کیا جاتا ہے۔عموماً اس میں نشہ نہیں ہوتا لہذا جائز ہے تاہم اگر نشہ پیدا ہوجائے تو حرام ہے۔ 1۔اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تو ہر نشہ آور مشروب کو حرام اور قابل حد سمجھتے تھے حالانکہ یہ مشروب احناف کی تعریف کے مطابق خمر نہیں پھر بھی آپ نے اس کے پینے پر حد نافذ فرمادی حالانکہ پینے والے کو نشہ نہیں آتا تھا کیونکہ اگر اسے نشہ آیا ہوتا تو تحقیق کی ضرورت ہی نہ تھی کہ وہ مشروب نشے والا تھا یا نہیں۔ معلوم ہوا کہ ان کیے نزدیک نشہ آور مشروب حرام اور قابل حد ہے قلیل ہو یا کثیر ۔نشہ آئے یا نہ آئے لہذا ان کی طرف ایسے مشروب کے پینے کی نسبت صحیح نہیں ہوسکتی ۔ 2۔ فلاں شخص یہ ان کے بیٹے عبیداللہ بن عمر تھے یہ صحابی نہیں تھے۔صحیح بخاری میں صراحت موجود ہے۔ 3۔ پوری حد لگائی کوئی رعایت نہیں فرمائی۔رضي الله عنه وارضاه۔ 4۔ طلاء ان انگور کے جوس کو آگ پرخشک کیا جاتا ہے۔جب وہ دو تہائی خشک ہوجاتا ہےاور لئی جیسا بن جاتا ہے تو اسے استعمال کیا جاتا ہے۔عموماً اس میں نشہ نہیں ہوتا لہذا جائز ہے تاہم اگر نشہ پیدا ہوجائے تو حرام ہے۔