سنن النسائي - حدیث 560

كِتَابُ الْمَوَاقِيتِ السَّاعَاتُ الَّتِي نُهِيَ عَنْ الصَّلَاةِ فِيهَا صحيح ، إلا قوله : " فإذا استوت قارنها فإذا زالت فارقها " أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ عَنْ مَالِكٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ الصُّنَابِحِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الشَّمْسُ تَطْلُعُ وَمَعَهَا قَرْنُ الشَّيْطَانِ فَإِذَا ارْتَفَعَتْ فَارَقَهَا فَإِذَا اسْتَوَتْ قَارَنَهَا فَإِذَا زَالَتْ فَارَقَهَا فَإِذَا دَنَتْ لِلْغُرُوبِ قَارَنَهَا فَإِذَا غَرَبَتْ فَارَقَهَا وَنَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الصَّلَاةِ فِي تِلْكَ السَّاعَاتِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 560

کتاب: اوقات نماز سے متعلق احکام و مسائل وہ اوقات جن میں نماز پڑھنے سے روکا گیا ہے حضرت عبداللہ سنابحی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سورج طلوع ہوتا ہے تو اس کے ساتھ شیطان کا سینگ بھی ہوتا ہے۔ پھر جب سورج بلند ہوجاتا ہے تو شیطان س سے دور ہوجاتا ہے۔ پھر جب سورج سر پر آجاتا ہے تو شیطان اس کے ساتھ مل جاتا ہے اور جب سورج ڈھل جاتا ہے تو شیطان اس سے الگ ہوجاتا ہے۔ پھر جب سورج غروب ہونے کے قریب ہوتا ہے تو شیطان پھر اس سے آملتا ہے اور جب غروب ہوجاتا ہے تو شیطان اس سے دور ہوجاتا ہے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان اوقات میں نماز پڑھنے سے روکا ہے۔‘‘
تشریح : (۱)احادیث میں پانچ اوقات میں نماز پڑھنے کی ممانعت آئی ہے: ٭عین طلوع کے وقت حتیٰ کہ سورج بقدر نیزہ بلند ہوجائے۔ ٭نصف النہار کے وقت، یعنی جب سورج عین سر پر ہو۔ ٭سورج کے زردی مائل ہونے سے لے کر غروب تک۔ ٭نماز فجر کے بعد حتیٰ کہ سورج طلوع ہوجائے۔ ٭عصر کے بعد۔ تمام علماء ان اوقات میں بلاسبب فرائض و نوافل پڑھنے کی حرمت کے قائل ہیں۔ ہاں، اگر کوئی سببی نماز ہو، جیسے ضروری نماز جو پڑھ نہ سکا ہو، تحیۃ المسجد، وضو کی سنتیں، نماز کسوف، نماز استسقاء، طواف کی دورکعتیں اور فرض نماز کی دوبارہ ادائیگی جبکہ مسجد میں موجود ہو اور نماز کی اقامت ہوجائے وغیرہ تو اس میں علماء کا اختلاف ہے۔ آئمہ ثلاثہ سوائے فرائض کے باقی تمام نوافل، خواہ سببی ہوں یا غیرسببی، کی ممانعت کے قائل ہیں اور ان کی دلیل یہی ممانعت والی روایات کا عموم ہے جبکہ امام شافعی اور ایک روایت کے مطابق امام احمد رحمہ اللہ ان ممنوعہ اوقات میں ہر اس نفل کی ادائیگی کے جواز کے قائل ہیں جس کی کوئی وجہ اور سبب ہو۔ ان کا کہنا ہے کہ جب دو عموم آپس میں متعارض ہوں تو دیکھا جائے گا کہ کس عموم میں تخصیص ہوئی ہے، لہٰذا جو عموم تخصیص سے محفوظ ہے اسے کمزور عموم، یعنی العموم المخصوص پر مقدم کیا جائے گا۔ اس اصول کی روشنی میں دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جب اس ممانعت سے فوت شدہ نماز مستثنیٰ ہے جو کہ یاد آنے یا بیدار ہونے پر پڑھ لی جاتی ہے، جب بھی یاد آئے جب بھی بیدار ہوکیونکہ حدیث میں اس کی اجازت ہے۔ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی دو سنتیں طلوع شمس کے بعد پڑھیں اور نوافل کی قضا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد ادا کی، لہٰذا جب ان مکروہ اوقات میں ان مذکورہ نمازوں کے پڑھنے کی اجازت شریعت میں ہے اور ان صورتوں کو مستثنیٰ کرلیا گیا ہے تو اس قسم کے دیگر نوافل جو اسباب کی وجہ سے پڑھے جاتے ہیں تو ان کی تخصیص کیوں نہیں ہوسکتی؟ اس لیے انسان جب بھی مسجد میں داخل ہو بلا کراہت تحیۃ المسجد پڑھ سکتا ہے، ایسے ہی دیگر ضروریات کی بنا پر پڑھی جانے والی نمازوں کو ان ممنوعہ اوقات میں پڑھنا جائز ہوگا کیونکہ ان کی ادائیگی کے وقت اسباب پیش نظر ہوتے ہیں، لہٰذا کسی وقت کی قید کے بغیر جب بھی اسباب کا تقاضا ہو، نوافل پڑھنے جائز ہیں کیونکہ اگر اسباب کو نظرانداز کردیا جائے تو بہت سے دینی مصالح ترک ہوجائیں گے اور یہ شریعت کا مزاج نہیں۔ اس طرح تمام دلائل ک تعارض رفع ہوجاتا ہے اور مسئلے میں وارد مختلف احادیث پر عمل بھی ممکن ہے۔ واللہ اعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (فتاوی شیخ الاسلام: ۳۳؍۱۸۷، و توضیح الاحکام شرح بلوغ المرام: ۱؍۴۹۲، والفقہ الاسلامی وادلتہ: ۱؍۵۲۴، وشرح النسائی للاقیوبی: ۷؍۲۹۹) (۲)شیطان کا طلوع اور غروب کے وقت سورج کے ساتھ مل جانا اس لیے ہے کہ لوگ ان اوقات میں سورج کی پوجا کرتے ہیں، حدیث میں ہے: [وحینئذ یسجد لھا الکفار] ’’اس وقت کفار سورج کو سجدہ کرتے ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، حدیث: ۵۳۲، وارواء الغلیل: ۲؍۲۳۷) شیطان چاہتا ہے کہ میری بھی پوجا ہو، لہٰذا وہ سورج اور اس کی پوجا کرنے والوں کے درمیان سورج کے سامنے آکھڑا ہوتاہے۔ اور عین استوا کے وقت نماز سے ممانعت کی علت بھی حدیث میں منقول ہے، فرمایا: [فانہ حینئذ تسجرجھنم] ’’کیونکہ اس وقت جہنم بھڑکائی جاتی ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، حدیث:۸۳۲) یہ تو حقیقی معنی ہیں اور اس میں کوئی چیز خلاف عقل یا بعید نہیں، البتہ بعض لوگ اسے استعارے پر محمول کرتے ہیں۔ (۳)ان تین اوقات میں نفل نماز سے روکا گیا ہے نہ کہ رہ جانے والی فرض نماز سے، وہ تو پڑھی جاسکتی ہے جب بھی یاد یا جاگ آجائے۔ لیکن عصر کے بعد ممانعت کے وقت کی ایک دوسری حدیث میں تخصیص وارد ہے اور وہ، وقت ہے جب سورج زردی مائل ہوجائے، یعنی اس وقت کوئی نماز بلاوجہ پڑھنے سے ممانعت ہے، ہاں! جب تک عصر کے بعد سورج چمکتا اور روشن رہے، زردی مائل نہ ہوا ہو، مطلقاً نوافل پڑھے جاسکتے ہیں، اس کی دلیل آئندہ آنے والی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی صحیح حدیث (۵۷۴) ہے۔ دیکھیے: (حدیث:۵۷۴، وارواء الغلیل:۲؍۲۳۷، وشرح سنن النسائی للإتیوبي:۷؍۳۶۳) (۴)شیخ البانی رحمہ اللہ کے نزدیک مذکورہ حدیث ان الفاظ: [فاذا استوت قارنھا فاذا زالت فارقھا] کے علاوہ صحیح ہے۔ دیکھیے: (ارواء الغلیل:۲؍۲۳۸) (۱)احادیث میں پانچ اوقات میں نماز پڑھنے کی ممانعت آئی ہے: ٭عین طلوع کے وقت حتیٰ کہ سورج بقدر نیزہ بلند ہوجائے۔ ٭نصف النہار کے وقت، یعنی جب سورج عین سر پر ہو۔ ٭سورج کے زردی مائل ہونے سے لے کر غروب تک۔ ٭نماز فجر کے بعد حتیٰ کہ سورج طلوع ہوجائے۔ ٭عصر کے بعد۔ تمام علماء ان اوقات میں بلاسبب فرائض و نوافل پڑھنے کی حرمت کے قائل ہیں۔ ہاں، اگر کوئی سببی نماز ہو، جیسے ضروری نماز جو پڑھ نہ سکا ہو، تحیۃ المسجد، وضو کی سنتیں، نماز کسوف، نماز استسقاء، طواف کی دورکعتیں اور فرض نماز کی دوبارہ ادائیگی جبکہ مسجد میں موجود ہو اور نماز کی اقامت ہوجائے وغیرہ تو اس میں علماء کا اختلاف ہے۔ آئمہ ثلاثہ سوائے فرائض کے باقی تمام نوافل، خواہ سببی ہوں یا غیرسببی، کی ممانعت کے قائل ہیں اور ان کی دلیل یہی ممانعت والی روایات کا عموم ہے جبکہ امام شافعی اور ایک روایت کے مطابق امام احمد رحمہ اللہ ان ممنوعہ اوقات میں ہر اس نفل کی ادائیگی کے جواز کے قائل ہیں جس کی کوئی وجہ اور سبب ہو۔ ان کا کہنا ہے کہ جب دو عموم آپس میں متعارض ہوں تو دیکھا جائے گا کہ کس عموم میں تخصیص ہوئی ہے، لہٰذا جو عموم تخصیص سے محفوظ ہے اسے کمزور عموم، یعنی العموم المخصوص پر مقدم کیا جائے گا۔ اس اصول کی روشنی میں دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جب اس ممانعت سے فوت شدہ نماز مستثنیٰ ہے جو کہ یاد آنے یا بیدار ہونے پر پڑھ لی جاتی ہے، جب بھی یاد آئے جب بھی بیدار ہوکیونکہ حدیث میں اس کی اجازت ہے۔ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی دو سنتیں طلوع شمس کے بعد پڑھیں اور نوافل کی قضا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد ادا کی، لہٰذا جب ان مکروہ اوقات میں ان مذکورہ نمازوں کے پڑھنے کی اجازت شریعت میں ہے اور ان صورتوں کو مستثنیٰ کرلیا گیا ہے تو اس قسم کے دیگر نوافل جو اسباب کی وجہ سے پڑھے جاتے ہیں تو ان کی تخصیص کیوں نہیں ہوسکتی؟ اس لیے انسان جب بھی مسجد میں داخل ہو بلا کراہت تحیۃ المسجد پڑھ سکتا ہے، ایسے ہی دیگر ضروریات کی بنا پر پڑھی جانے والی نمازوں کو ان ممنوعہ اوقات میں پڑھنا جائز ہوگا کیونکہ ان کی ادائیگی کے وقت اسباب پیش نظر ہوتے ہیں، لہٰذا کسی وقت کی قید کے بغیر جب بھی اسباب کا تقاضا ہو، نوافل پڑھنے جائز ہیں کیونکہ اگر اسباب کو نظرانداز کردیا جائے تو بہت سے دینی مصالح ترک ہوجائیں گے اور یہ شریعت کا مزاج نہیں۔ اس طرح تمام دلائل ک تعارض رفع ہوجاتا ہے اور مسئلے میں وارد مختلف احادیث پر عمل بھی ممکن ہے۔ واللہ اعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (فتاوی شیخ الاسلام: ۳۳؍۱۸۷، و توضیح الاحکام شرح بلوغ المرام: ۱؍۴۹۲، والفقہ الاسلامی وادلتہ: ۱؍۵۲۴، وشرح النسائی للاقیوبی: ۷؍۲۹۹) (۲)شیطان کا طلوع اور غروب کے وقت سورج کے ساتھ مل جانا اس لیے ہے کہ لوگ ان اوقات میں سورج کی پوجا کرتے ہیں، حدیث میں ہے: [وحینئذ یسجد لھا الکفار] ’’اس وقت کفار سورج کو سجدہ کرتے ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، حدیث: ۵۳۲، وارواء الغلیل: ۲؍۲۳۷) شیطان چاہتا ہے کہ میری بھی پوجا ہو، لہٰذا وہ سورج اور اس کی پوجا کرنے والوں کے درمیان سورج کے سامنے آکھڑا ہوتاہے۔ اور عین استوا کے وقت نماز سے ممانعت کی علت بھی حدیث میں منقول ہے، فرمایا: [فانہ حینئذ تسجرجھنم] ’’کیونکہ اس وقت جہنم بھڑکائی جاتی ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، حدیث:۸۳۲) یہ تو حقیقی معنی ہیں اور اس میں کوئی چیز خلاف عقل یا بعید نہیں، البتہ بعض لوگ اسے استعارے پر محمول کرتے ہیں۔ (۳)ان تین اوقات میں نفل نماز سے روکا گیا ہے نہ کہ رہ جانے والی فرض نماز سے، وہ تو پڑھی جاسکتی ہے جب بھی یاد یا جاگ آجائے۔ لیکن عصر کے بعد ممانعت کے وقت کی ایک دوسری حدیث میں تخصیص وارد ہے اور وہ، وقت ہے جب سورج زردی مائل ہوجائے، یعنی اس وقت کوئی نماز بلاوجہ پڑھنے سے ممانعت ہے، ہاں! جب تک عصر کے بعد سورج چمکتا اور روشن رہے، زردی مائل نہ ہوا ہو، مطلقاً نوافل پڑھے جاسکتے ہیں، اس کی دلیل آئندہ آنے والی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی صحیح حدیث (۵۷۴) ہے۔ دیکھیے: (حدیث:۵۷۴، وارواء الغلیل:۲؍۲۳۷، وشرح سنن النسائی للإتیوبي:۷؍۳۶۳) (۴)شیخ البانی رحمہ اللہ کے نزدیک مذکورہ حدیث ان الفاظ: [فاذا استوت قارنھا فاذا زالت فارقھا] کے علاوہ صحیح ہے۔ دیکھیے: (ارواء الغلیل:۲؍۲۳۸)