سنن النسائي - حدیث 559

كِتَابُ الْمَوَاقِيتِ مَنْ أَدْرَكَ رَكْعَةً مِنْ الصَّلَاةِ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ التِّرْمِذِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ بْنُ سُلَيْمَانَ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بِلَالٍ عَنْ يُونُسَ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ سَالِمٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ أَدْرَكَ رَكْعَةً مِنْ صَلَاةٍ مِنْ الصَّلَوَاتِ فَقَدْ أَدْرَكَهَا إِلَّا أَنَّهُ يَقْضِي مَا فَاتَهُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 559

کتاب: اوقات نماز سے متعلق احکام و مسائل جس نے کسی نماز کی ایک رکعت پا لی حضرت سالم سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص نے کسی بھی نماز کی ایک رکعت پالی، اس نے نماز پالی مگر جتنی نماز اس سے رہ گئی ہے، اسے پوری کرے گا۔‘‘
تشریح : (۱)اس سے قبل کی احادیث صبح اور عصر کے بارے میں تھیں۔ اس باب کے تحت آنے والی احادیث عام نماز کے بارے میں ہیں کہ جس نماز کی بھی ایک رکعت وقت میں پڑھ لی جائے اور باقی رکعات بھی ساتھ پڑھ لی جائیں تو اگرچہ باقی رکعات وقت کے بعد ادا ہوئی ہیں مگر آغاز کا لحاظ رکھتے ہوئے نماز، قضا کی بجائے ادا معتبر ہوگی۔ (۲)مزید یہ معلوم ہوا کہ نماز کے آخری وقت میں جو مسافر ہے، وہ سفر کی نماز ادا کرے گا اور جو اس وقت مقیم ہے، وہ گھر کی نماز پڑھے گا، خواہ بعد ہی میں پڑھے۔ اس وقت موت آجائے تو وہ نماز معاف ہوجائے گی اور اگر اس وقت کوئی بالغ ہوجائے یا حیض رک جانے یا مجنون تندرست ہوجائے تو وہ نماز ان پر واجب ہوگی، بشرطیکہ ایک رکعت کا وقت باقی ہو۔ (۳)جمعہ کی نماز میں اگر کوئی شخص ایک رکعت میں مل جائے تو وہ جمعہ کی نماز پڑھے گا اور اگر ایک رکعت سے کم میں ملے تو اس حدیث کی رو سے جمعے کی بجائے ظہر کی چار رکعت پڑھے گا، مگر علمائے احناف کے نزدیک اگر جمعہ کی نماز کا سلام پھیرنے سے قبل کسی وقت بھی مل جائے تو جمعہ کی نماز (دورکعت) ہی پڑھے گا۔ مذکورہ احادیث میں ایک رکعت کی تصریح ہے، لہٰذا نص کے مقابلے میں عقلی دلیل غیرمعتبر ہے۔ (۴)اگر کوئی شخص جماعت کے ساتھ ایک رکعت پالے، باقی بعد میں پڑھے تو کہا جائے گا کہ اس نے نماز باجماعت پڑھی ہے اگرچہ شروع سے ساتھ ملنے والا اور یہ شخص ثوابِ جماعت میں برابر نہیں ہوسکتے۔ (۵)اگر کوئی شخص ایک رکعت کا وقت پائے تو اس پر وہ نماز واجب ہوگی اگر کم پائے تو نماز واجب نہ ہوگی۔ احناف کا خیال ہے کہ اگر تکبیرتحریمہ کا وقت پالے، تب بھی نماز واجب ہوگی مگر یہ قول ان احادیث کے خلاف ہے۔ (۶)بعض اہل علم نے یہاں ’’رکعت‘‘ کو رکوع کے معنی میں اور ’’صلاۃ‘‘ کو رکعت کے معنی میں کرکے یہ مفہوم نکالا ہے کہ جس شخص نے امام کے ساتھ رکوع پالیا اس نے رکعت پالی، مگر سوچنے کی بات ہے کہ کیا یہ معنی ایک خالی الذہن شخص کی سمجھ میں آتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ تمام الفاظ کے حقیقی معانی کو چھوڑ کر مجازی معنی مراد لینے کی دلیل کیا ہے؟ بغیر دلیل کے تاویل درست نہیں۔ بعض احادیث میں [رکعۃ واحدۃ] کے لفظ بھی ہیں جو اس تاویل کا صراحتاً رد کرتے ہیں۔ باقی رہی اس مسئلے کی تحقیق کہ رکوع کی رکعت معتبر ہے یا نہیں؟ تو وہ اپنے مقام پر آئے گی۔ ان شاء اللہ۔ (۱)اس سے قبل کی احادیث صبح اور عصر کے بارے میں تھیں۔ اس باب کے تحت آنے والی احادیث عام نماز کے بارے میں ہیں کہ جس نماز کی بھی ایک رکعت وقت میں پڑھ لی جائے اور باقی رکعات بھی ساتھ پڑھ لی جائیں تو اگرچہ باقی رکعات وقت کے بعد ادا ہوئی ہیں مگر آغاز کا لحاظ رکھتے ہوئے نماز، قضا کی بجائے ادا معتبر ہوگی۔ (۲)مزید یہ معلوم ہوا کہ نماز کے آخری وقت میں جو مسافر ہے، وہ سفر کی نماز ادا کرے گا اور جو اس وقت مقیم ہے، وہ گھر کی نماز پڑھے گا، خواہ بعد ہی میں پڑھے۔ اس وقت موت آجائے تو وہ نماز معاف ہوجائے گی اور اگر اس وقت کوئی بالغ ہوجائے یا حیض رک جانے یا مجنون تندرست ہوجائے تو وہ نماز ان پر واجب ہوگی، بشرطیکہ ایک رکعت کا وقت باقی ہو۔ (۳)جمعہ کی نماز میں اگر کوئی شخص ایک رکعت میں مل جائے تو وہ جمعہ کی نماز پڑھے گا اور اگر ایک رکعت سے کم میں ملے تو اس حدیث کی رو سے جمعے کی بجائے ظہر کی چار رکعت پڑھے گا، مگر علمائے احناف کے نزدیک اگر جمعہ کی نماز کا سلام پھیرنے سے قبل کسی وقت بھی مل جائے تو جمعہ کی نماز (دورکعت) ہی پڑھے گا۔ مذکورہ احادیث میں ایک رکعت کی تصریح ہے، لہٰذا نص کے مقابلے میں عقلی دلیل غیرمعتبر ہے۔ (۴)اگر کوئی شخص جماعت کے ساتھ ایک رکعت پالے، باقی بعد میں پڑھے تو کہا جائے گا کہ اس نے نماز باجماعت پڑھی ہے اگرچہ شروع سے ساتھ ملنے والا اور یہ شخص ثوابِ جماعت میں برابر نہیں ہوسکتے۔ (۵)اگر کوئی شخص ایک رکعت کا وقت پائے تو اس پر وہ نماز واجب ہوگی اگر کم پائے تو نماز واجب نہ ہوگی۔ احناف کا خیال ہے کہ اگر تکبیرتحریمہ کا وقت پالے، تب بھی نماز واجب ہوگی مگر یہ قول ان احادیث کے خلاف ہے۔ (۶)بعض اہل علم نے یہاں ’’رکعت‘‘ کو رکوع کے معنی میں اور ’’صلاۃ‘‘ کو رکعت کے معنی میں کرکے یہ مفہوم نکالا ہے کہ جس شخص نے امام کے ساتھ رکوع پالیا اس نے رکعت پالی، مگر سوچنے کی بات ہے کہ کیا یہ معنی ایک خالی الذہن شخص کی سمجھ میں آتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ تمام الفاظ کے حقیقی معانی کو چھوڑ کر مجازی معنی مراد لینے کی دلیل کیا ہے؟ بغیر دلیل کے تاویل درست نہیں۔ بعض احادیث میں [رکعۃ واحدۃ] کے لفظ بھی ہیں جو اس تاویل کا صراحتاً رد کرتے ہیں۔ باقی رہی اس مسئلے کی تحقیق کہ رکوع کی رکعت معتبر ہے یا نہیں؟ تو وہ اپنے مقام پر آئے گی۔ ان شاء اللہ۔