كِتَابُ الِاسْتِعَاذَةِ الِاسْتِعَاذَةُ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعَ وَذِكْرُ الِاخْتِلَافِ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ فِيهِ صحيح أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ قَالَ حَدَّثَنَا يَزِيدُ وَهُوَ ابْنُ زُرَيْعٍ قَالَ حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ بُشَيْرِ بْنِ كَعْبٍ عَنْ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ سَيِّدَ الِاسْتِغْفَارِ أَنْ يَقُولَ الْعَبْدُ اللَّهُمَّ أَنْتَ رَبِّي لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ خَلَقْتَنِي وَأَنَا عَبْدُكَ وَأَنَا عَلَى عَهْدِكَ وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ أَبُوءُ لَكَ بِذَنْبِي وَأَبُوءُ لَكَ بِنِعْمَتِكَ عَلَيَّ فَاغْفِرْ لِي فَإِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ فَإِنْ قَالَهَا حِينَ يُصْبِحُ مُوقِنًا بِهَا فَمَاتَ دَخَلَ الْجَنَّةَ وَإِنْ قَالَهَا حِينَ يُمْسِي مُوقِنًا بِهَا دَخَلَ الْجَنَّةَ خَالَفَهُ الْوَلِيدُ بْنُ ثَعْلَبَةَ
کتاب: اللہ تعالیٰ کی پناہ حاصل کرنے کا بیان
اپنے کیے ہوئےگناہوں کےشرسے پناہ مانگنااور اس حدیث میں عبداللہ بن بریدہ پراختلاف
حضرت شدادبن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبئ اکرم ﷺنےفرمایا:’’’سب سے اہم اورافضل استغفار یہ ہے کہ بندہ کہے:اے اللہ !تومیرا رب ہے ۔تیرے سواکوئی معبودنہیں ۔تومیرا خالق ہے۔میں تیرابندہ ہوں ۔اورمیں اپنی طاقت واستطاعت کےمطابق تجھ سے کیے ہوئے عہدووعدے پرقائم ہوں۔میں اپنےگناہوں کےشرسےتیری پناہ چاہتاہوں ۔میں اپںے ہرقسم کےگناہوں کااعتراف کرتاہوں اوراپنے آپ پرتیری نوازشات کااقرار کرتاہوں لہذامجھے معاف فرما کیونکہ تیرے سوا کوئی گناہ معاف نہیں کرسکتا۔‘‘اگرکوئی شخص یقین وایمان کےساتھ صبح کےوقت یہ کلمات پڑھے پھر مرجائےتو(لازماً)جنت میں داخل ہوگا اوراگر شام کےوقت یہی کلمات یقین وایمان رکھتے ہوئے کہے(ورمرجائے)تو(لازماً)جنت میں داخل ہوگا۔‘‘ولید ببن ثعلبہ نےاس (حسین المعلم ) کی مخالفت کی ہے
تشریح :
1۔امام نسائی رحمتہ اللہ علیہ نے جوترجمۃ الباب قائم کیا ہے اس سے ان کامقصد یہ مسئلہ بیان کرنا ہے کہ انسان کوچاہیےکہ وہ اپنے کیے ہوئے کاموں کےشر اوران کےنقصان سے بچنے کےلیے اللہ تعالی کی پناہ حاصل کرے۔ شرعاً یہ مستحب اورپسندیدہ عمل ہے ۔
2۔ اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ مذکورہ دعا افضل استغفار ہے ۔
3۔ اہم وافضل یعنی اپنے الفاظ کی مناسبت سے اورجامع ہونے کے وجہ سے ۔ عربی میں لفظ سید استعمال فرمایا گیا ہے جس کے لفظی معنی سردار کےہیں ترجمہ میں لازم معنی اختیار کیاگیا ہے تاکہ مقصود ظاہر ہوجائے ۔
4۔ استطاعت کےمطابق یہ دراصل اپنی کوتاہی اورعجز کااعتراف ہے نہ کہ دعوی ۔
5۔ عہدووعدے سے مرادفطری عہد بھی ہوسکتا ہے جسے عھدالست کہاجاتا ہے اورزبانی عہد بھی مثلاً کلمہ توحید ورسالت کی ادائیگی وغیرہ ۔
6۔ داخل ہوگا یعنی مرتےہی اولیں طور پر ۔گویا اللہ تعالی اس عمل کی توفیق ہی اس شخص کودے گا جس کی مغفرت کافیصلہ ہوچکا ہو ورنہ ممکن ہے اس شخص ساری زندگی یہ دعاپڑھتا رہےمگر موت والے دن یا رات نصیب نہ ہو ۔ العیاذ باللہ یا پڑھے توسہی مگر ایمان ویقین نہ ہو ۔ اللہ تعالی ایسی قبیح حالت سے بچائے ۔ آمین .
1۔امام نسائی رحمتہ اللہ علیہ نے جوترجمۃ الباب قائم کیا ہے اس سے ان کامقصد یہ مسئلہ بیان کرنا ہے کہ انسان کوچاہیےکہ وہ اپنے کیے ہوئے کاموں کےشر اوران کےنقصان سے بچنے کےلیے اللہ تعالی کی پناہ حاصل کرے۔ شرعاً یہ مستحب اورپسندیدہ عمل ہے ۔
2۔ اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ مذکورہ دعا افضل استغفار ہے ۔
3۔ اہم وافضل یعنی اپنے الفاظ کی مناسبت سے اورجامع ہونے کے وجہ سے ۔ عربی میں لفظ سید استعمال فرمایا گیا ہے جس کے لفظی معنی سردار کےہیں ترجمہ میں لازم معنی اختیار کیاگیا ہے تاکہ مقصود ظاہر ہوجائے ۔
4۔ استطاعت کےمطابق یہ دراصل اپنی کوتاہی اورعجز کااعتراف ہے نہ کہ دعوی ۔
5۔ عہدووعدے سے مرادفطری عہد بھی ہوسکتا ہے جسے عھدالست کہاجاتا ہے اورزبانی عہد بھی مثلاً کلمہ توحید ورسالت کی ادائیگی وغیرہ ۔
6۔ داخل ہوگا یعنی مرتےہی اولیں طور پر ۔گویا اللہ تعالی اس عمل کی توفیق ہی اس شخص کودے گا جس کی مغفرت کافیصلہ ہوچکا ہو ورنہ ممکن ہے اس شخص ساری زندگی یہ دعاپڑھتا رہےمگر موت والے دن یا رات نصیب نہ ہو ۔ العیاذ باللہ یا پڑھے توسہی مگر ایمان ویقین نہ ہو ۔ اللہ تعالی ایسی قبیح حالت سے بچائے ۔ آمین .