كِتَابُ الْمَوَاقِيتِ الْإِسْفَارُ صحيح الإسناد أَخْبَرَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ يَعْقُوبَ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ قَالَ أَخْبَرَنَا أَبُو غَسَّانَ قَالَ حَدَّثَنِي زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ عَنْ مَحْمُودِ بْنِ لَبِيدٍ عَنْ رِجَالٍ مِنْ قَوْمِهِ مِنْ الْأَنْصَارِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا أَسْفَرْتُمْ بِالْفَجْرِ فَإِنَّهُ أَعْظَمُ بِالْأَجْرِ
کتاب: اوقات نماز سے متعلق احکام و مسائل
فجر کی نماز روشنی میں بھی پڑھی جا سکتی ہے
حضرت محمود بن لبید رضی اللہ عنہ نے اپنی قوم انصار کے کئی بزرگوں سے بیان کیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’فجر کی نماز پڑھتے پڑھتے تم جس قدر بھی روشنی کرو گے، وہ تمھارے لیے ثواب میں اضافے کا ذریعہ ہے۔‘‘
تشریح :
(۱)’’روشن کرو‘‘ کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ دیر کرکے پڑھو۔ یہ اگرچہ جائز ہے مگر افضل نہیں کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ اندھیرے میں نماز پڑھنے کا تھا جیسے کہ اوپر بیان ہوا، اس لیے اس روایت کے کچھ اور مفہوم بھی بیان کیے گئے ہیں، مثلاً : نماز اندھیرے میں شروع کرکے لمبی قراءت کی جائے حتیٰ کہ روشنی ہوجائے۔ دوسری روایت کے ترجمے میں یہی مفہوم اختیار کیا گیا ہے اور یہ آپ کے عمل کے مطابق بھی ہے۔ یا روشنی سے مراد افق (آسمان کے کنارے) پر روشنی ہے نہ کہ زمینپر، یعنی نماز اس وقت پڑھی جائے جب مشرقی افق روشن ہوجائے، البتہ زمین پر اندھیرا ہی ہوگا۔ یہ مفہوم بھی آپ کے طرزعمل سے مطابقت رکھتا ہے۔ یا یہ حکم ان مساجد کے لیے ہے جن میں بڑا مجمع ہوتا ہے، ہر قسم کے نمازی ہوتی ہیں اور وہ جلدی اکٹھے نہیں ہوسکتے۔ یا تاکہ لوگ آسانی سے جماعت کے ساتھ مل جائیں، جتنے مقتدی زیادہ ہوں گے، اتنا ہی ثواب زیادہ ہوگا۔ واللہ اعلم۔ (۲)دوسری روایت کا مطلب یہ ہے کہ نماز اندھیرے میں شروع ہوجائے، پھر پڑھتے پڑھتے روشنی ہوجائے تو کوئی حرج نہیں بلکہ یہ تو زیادہ ثواب والی بات ہے، مگر بعد میں کم از کم اتنا وقت سورج طلوع ہونے تک ضرور ہونا چاہیے کہ اگر ضرورت پڑے تو نیاوضو کرکے مسنون طریقے سے دوبار ہ نماز باجماعت دہرائی جاسکے۔ مزید تفصیل کے لیے اسی کتاب کا ابتدائی ملاحظہ فرمائیں۔
(۱)’’روشن کرو‘‘ کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ دیر کرکے پڑھو۔ یہ اگرچہ جائز ہے مگر افضل نہیں کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ اندھیرے میں نماز پڑھنے کا تھا جیسے کہ اوپر بیان ہوا، اس لیے اس روایت کے کچھ اور مفہوم بھی بیان کیے گئے ہیں، مثلاً : نماز اندھیرے میں شروع کرکے لمبی قراءت کی جائے حتیٰ کہ روشنی ہوجائے۔ دوسری روایت کے ترجمے میں یہی مفہوم اختیار کیا گیا ہے اور یہ آپ کے عمل کے مطابق بھی ہے۔ یا روشنی سے مراد افق (آسمان کے کنارے) پر روشنی ہے نہ کہ زمینپر، یعنی نماز اس وقت پڑھی جائے جب مشرقی افق روشن ہوجائے، البتہ زمین پر اندھیرا ہی ہوگا۔ یہ مفہوم بھی آپ کے طرزعمل سے مطابقت رکھتا ہے۔ یا یہ حکم ان مساجد کے لیے ہے جن میں بڑا مجمع ہوتا ہے، ہر قسم کے نمازی ہوتی ہیں اور وہ جلدی اکٹھے نہیں ہوسکتے۔ یا تاکہ لوگ آسانی سے جماعت کے ساتھ مل جائیں، جتنے مقتدی زیادہ ہوں گے، اتنا ہی ثواب زیادہ ہوگا۔ واللہ اعلم۔ (۲)دوسری روایت کا مطلب یہ ہے کہ نماز اندھیرے میں شروع ہوجائے، پھر پڑھتے پڑھتے روشنی ہوجائے تو کوئی حرج نہیں بلکہ یہ تو زیادہ ثواب والی بات ہے، مگر بعد میں کم از کم اتنا وقت سورج طلوع ہونے تک ضرور ہونا چاہیے کہ اگر ضرورت پڑے تو نیاوضو کرکے مسنون طریقے سے دوبار ہ نماز باجماعت دہرائی جاسکے۔ مزید تفصیل کے لیے اسی کتاب کا ابتدائی ملاحظہ فرمائیں۔