سنن النسائي - حدیث 55

ذِكْرُ الْفِطْرَةِ تَرْكُ التَّوْقِيتِ فِي الْمَاءِ صحيح أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ قَالَ سَمِعْتُ أَنَسًا يَقُولُ جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلَى الْمَسْجِدِ فَبَالَ فَصَاحَ بِهِ النَّاسُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اتْرُكُوهُ فَتَرَكُوهُ حَتَّى بَالَ ثُمَّ أَمَرَ بِدَلْوٍ فَصُبَّ عَلَيْهِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 55

کتاب: امور فطرت کا بیان پانی میں کوئی حد بندی نہیں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی مسجد میں آیا اور پیشاب کرنے لگا۔ لوگ اسے ڈانٹنے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اسے کر لینے دو۔‘‘ لوگوں نے اسے کچھ نہ کہا حتی کہ وہ پیشاب سے فارغ ہوگیا، پھر آپ نے ایک ڈول پانی منگوایا اور اسے اس پر بہا دیا گیا۔
تشریح : اس شخص کا نام ذوالخویصرہ تھا، چونکہ وہ پیشاب شروع کرچکا تھا اور جگہ بھی پلید ہوچکی تھی، اس لیے اسے روکنا بے فائدہ تھا، اب اسے روکتے تو ممکن تھا کہ پیشاب نہ رکتا اور وہ چلتے چلتے باقی مسجد بھی پلید کر ڈالتا یا پیشاب رک جاتا تو اس کے مثانے میں خرابی واقع ہو جاتی۔ گویا نبیٔ اکرام صلی اللہ علیہ وسلم نے دو متحقق خرابیوں اور مفاسد میں سے اس مفسدے کو برداشت اور اختیار کرنے کی تلقین کی جو نسبتاً دوسرے سے قباحت میں کم تھا اوروہ تھا مسجد میں پیشاب کرنا، جبکہ دوران پیشاب میں دیہاتی کو پیشاب کرنے سے روکنا، یہ اس سے بھی بڑھ کر اس کے لیے اذیت ناک تھا اور مسجد میں مزید آلودگی پھیلنے کا خدشہ بھی تھا، لہٰذا اس دلیل کو مدنظر رکھتے ہوئے علمائے اسلام نے اس حدیث سے أخف الضررین، یعنی خفیف ترین ضرر اور اذیت کو بڑی اذیت اور قباحت کے مقابلے میں اختیار کرنے کا قاعدہ استخراج کیا ہے۔ اس شخص کا نام ذوالخویصرہ تھا، چونکہ وہ پیشاب شروع کرچکا تھا اور جگہ بھی پلید ہوچکی تھی، اس لیے اسے روکنا بے فائدہ تھا، اب اسے روکتے تو ممکن تھا کہ پیشاب نہ رکتا اور وہ چلتے چلتے باقی مسجد بھی پلید کر ڈالتا یا پیشاب رک جاتا تو اس کے مثانے میں خرابی واقع ہو جاتی۔ گویا نبیٔ اکرام صلی اللہ علیہ وسلم نے دو متحقق خرابیوں اور مفاسد میں سے اس مفسدے کو برداشت اور اختیار کرنے کی تلقین کی جو نسبتاً دوسرے سے قباحت میں کم تھا اوروہ تھا مسجد میں پیشاب کرنا، جبکہ دوران پیشاب میں دیہاتی کو پیشاب کرنے سے روکنا، یہ اس سے بھی بڑھ کر اس کے لیے اذیت ناک تھا اور مسجد میں مزید آلودگی پھیلنے کا خدشہ بھی تھا، لہٰذا اس دلیل کو مدنظر رکھتے ہوئے علمائے اسلام نے اس حدیث سے أخف الضررین، یعنی خفیف ترین ضرر اور اذیت کو بڑی اذیت اور قباحت کے مقابلے میں اختیار کرنے کا قاعدہ استخراج کیا ہے۔