سنن النسائي - حدیث 5493

كِتَابُ الِاسْتِعَاذَةِ الِاسْتِعَاذَةُ مِنْ سُوءِ الْقَضَاءِ صحيح أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ عَنْ سُمَيٍّ عَنْ أَبِي صَالِحٍ إِنْ شَاءَ اللَّهُ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَعَوَّذُ مِنْ هَذِهِ الثَّلَاثَةِ مِنْ دَرَكِ الشَّقَاءِ وَشَمَاتَةِ الْأَعْدَاءِ وَسُوءِ الْقَضَاءِ وَجَهْدِ الْبَلَاءِ قَالَ سُفْيَانُ هُوَ ثَلَاثَةٌ فَذَكَرْتُ أَرْبَعَةً لِأَنِّي لَا أَحْفَظُ الْوَاحِدَ الَّذِي لَيْسَ فِيهِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 5493

کتاب: اللہ تعالیٰ کی پناہ حاصل کرنے کا بیان بری تقدیر سے بچنے کی دعا حضرت ابوھریرہ ﷜سے روایت ہے ‘انھوں نے فرمایاکہ نبیٔ اکرمﷺان تین چیزوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگا کرتے تھے :بدبختی کے آپکڑنے سے ‘دشمنوں کی نارواخوشی سے ‘بری تقدیر سے اور شدید آزمائش اور مصیبت سے۔(راوی حدیث)سفیان (ابن عیینہ)نے کہا :حدیث میں تو تین چیزیں ذکر تھیں مگر میں نے چار اس لیے ذکر کر دیں کہ مجھے یاد نہ رہا ‘وہ تین کون سی ہیں ؟او ر چوتھی کون سی جو ان میں شامل نہیں ۔(ویسے یہ چاروں آئندہ صحیح حدیث میں مذکور ہیں
تشریح : (1)باقی تین چیزیں بھی سُوء القضاء کے تحت ہی آتی ہیں کیونکہ دنیامیں بری تقدیر شدید آزمائش اور مصیبت کی صورت میں ہوتی ہے جس سے دشمن ناروا طور پر خوش ہوتے ہیں۔اور اگر اس کا تعلق آخرت سے ہو تو یہ انتہا درجے کی بد بختی ہے ۔(2)تقدیر کا برا ہونا متعلقہ شخص کے لحاظ سے ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کا ہر فیصلہ اور ہر قضاو قدردرست اور اچھا ہے ۔والشر لیس الیک .اگرچہ ہم اس کی حقیقت کو نہ جان سکیں۔(3) بری تقدیر سے بچاؤکی دعا کی جا سکتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ مختارکل ہے۔جب چاہیے تقدیر بدل دے (لا یسٔل عما یفعل)نیز دعا بھی اسباب میں سے ہے اور اسباب تقدیر کا حصہ ہیں ۔گویا تقدیر یوں تھی کہ یہ شخص دعا کرے گا اور اس سے سختی ڈال دی جائے گی‘نیز دعا بھی عبادت ہے ۔ثواب تو ملے گا ہی ۔بندہ ہونے کے ناطے دعا کرنا ضروری ہے دعا سے انکار تکبر ہے ۔ (4)شدید مصیبت اور آزمائش سے مراد وہ حالت ہے جس سے موت آسان معلوم ہو ‘جسمانی مصیبت ہو یا مالی۔ (1)باقی تین چیزیں بھی سُوء القضاء کے تحت ہی آتی ہیں کیونکہ دنیامیں بری تقدیر شدید آزمائش اور مصیبت کی صورت میں ہوتی ہے جس سے دشمن ناروا طور پر خوش ہوتے ہیں۔اور اگر اس کا تعلق آخرت سے ہو تو یہ انتہا درجے کی بد بختی ہے ۔(2)تقدیر کا برا ہونا متعلقہ شخص کے لحاظ سے ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کا ہر فیصلہ اور ہر قضاو قدردرست اور اچھا ہے ۔والشر لیس الیک .اگرچہ ہم اس کی حقیقت کو نہ جان سکیں۔(3) بری تقدیر سے بچاؤکی دعا کی جا سکتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ مختارکل ہے۔جب چاہیے تقدیر بدل دے (لا یسٔل عما یفعل)نیز دعا بھی اسباب میں سے ہے اور اسباب تقدیر کا حصہ ہیں ۔گویا تقدیر یوں تھی کہ یہ شخص دعا کرے گا اور اس سے سختی ڈال دی جائے گی‘نیز دعا بھی عبادت ہے ۔ثواب تو ملے گا ہی ۔بندہ ہونے کے ناطے دعا کرنا ضروری ہے دعا سے انکار تکبر ہے ۔ (4)شدید مصیبت اور آزمائش سے مراد وہ حالت ہے جس سے موت آسان معلوم ہو ‘جسمانی مصیبت ہو یا مالی۔