سنن النسائي - حدیث 5468

كِتَابُ الِاسْتِعَاذَةِ الِاسْتِعَاذَةُ مِنْ شَرِّ فِتْنَةِ الْقَبْرِ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ قَالَ حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَثِيرًا مَا يَدْعُو بِهَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ النَّارِ وَعَذَابِ النَّارِ وَفِتْنَةِ الْقَبْرِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ وَشَرِّ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ وَشَرِّ فِتْنَةِ الْفَقْرِ وَشَرِّ فِتْنَةِ الْغِنَى اللَّهُمَّ اغْسِلْ خَطَايَايَ بِمَاءِ الثَّلْجِ وَالْبَرَدِ وَأَنْقِ قَلْبِي مِنْ الْخَطَايَا كَمَا أَنْقَيْتَ الثَّوْبَ الْأَبْيَضَ مِنْ الدَّنَسِ وَبَاعِدْ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَايَ كَمَا بَاعَدْتَ بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ الْكَسَلِ وَالْهَرَمِ وَالْمَأْثَمِ وَالْمَغْرَمِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 5468

کتاب: اللہ تعالیٰ کی پناہ حاصل کرنے کا بیان فتنۂ قبر کے شر سے (اللہ تعالیٰ کی)پناہ طلب کرنا ۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ بسا اوقات ان کلمات کے ساتھ دعا فرمایاکےتے تھے :’’اے اللہ میں آگ تک پہنچانے والے فتنے ‘آگ کے عذاب ‘فبر کی آزمائش ‘عذاب قبر ‘مسیح دجال کے فتنے کی خرابی ‘آزمائش فقر کی خرابی اور آزمائش دولت کی خرابی سے تیری پناہ میں آتا ہوں ۔اے اللہ!میری غلطیوں کو برف کے پانی اور اولوں سے دھو ڈال.اور میرے دل کو غلطیوں کے اثرات سے یوں صاف فرما دے ‘جیسے تو نے سفید کپڑے کو میل کچیل سے صا ف رکھا ہے ‘نیز میرے اور میری غلطیوں کے درمیان اتنا فاصلہ فرما دے جتنا فاصلہ تو نے مشرق اور مغرب کے درمیان رکھا ہے ۔اے اللہ!کاہلی شدید پڑھاپے ‘گناہ اور جان لیوا قرض سے تیری پناہ چاہتا ہوں ۔‘‘
تشریح : ( 1)فتنہ دراصل کسی چیز کی آزمائش کو کہا جاتا ہے ‘مثلاًسونے کو آگ میں ڈال کر کھرے کھو ٹے کو جاننا۔انسان کو بھی مختلف چیزوں کے ساتھ آزمائش میں ڈالا جاتا ہے ‘مثلاًفقر اور دولت وغیرہ تا کہ اس کا ایمان یا کفر ظاہر ہو سکے ۔اسی طرح دجال کے ذریعے سے بھی لوگوں کی آزمائش ہو گی ۔قبر کے سوال و جواب سے بھی ایمان وکفر کا پتا چلے گا ‘اس لیے ان چیزوں کو فتنہ کہا گیا ہے ۔(2)فتنہ قبر سے مراد سوال و جواب ہیں جو فرشتوں اور مدفون انسان کے درمیان ہوتے ہیں ۔اور ان فتنوں کی خرابی سے مرا دیہ ہے کہ ان چیزوں کے ساتھ آزمائش کے دوران انسان ناکام ہو جائے اور ایمان کے بجائے کفر ظاہر ہو ۔(3)غلطیوں کو دھو ڈالنے کا مفہوم ملا خط فرمائیے ‘حدیث:61 اور 896۔ ( 1)فتنہ دراصل کسی چیز کی آزمائش کو کہا جاتا ہے ‘مثلاًسونے کو آگ میں ڈال کر کھرے کھو ٹے کو جاننا۔انسان کو بھی مختلف چیزوں کے ساتھ آزمائش میں ڈالا جاتا ہے ‘مثلاًفقر اور دولت وغیرہ تا کہ اس کا ایمان یا کفر ظاہر ہو سکے ۔اسی طرح دجال کے ذریعے سے بھی لوگوں کی آزمائش ہو گی ۔قبر کے سوال و جواب سے بھی ایمان وکفر کا پتا چلے گا ‘اس لیے ان چیزوں کو فتنہ کہا گیا ہے ۔(2)فتنہ قبر سے مراد سوال و جواب ہیں جو فرشتوں اور مدفون انسان کے درمیان ہوتے ہیں ۔اور ان فتنوں کی خرابی سے مرا دیہ ہے کہ ان چیزوں کے ساتھ آزمائش کے دوران انسان ناکام ہو جائے اور ایمان کے بجائے کفر ظاہر ہو ۔(3)غلطیوں کو دھو ڈالنے کا مفہوم ملا خط فرمائیے ‘حدیث:61 اور 896۔