سنن النسائي - حدیث 5462

كِتَابُ الِاسْتِعَاذَةِ الِاسْتِعَاذَةُ مِنْ الذِّلَّةِ صحيح أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ خُشَيْشُ بْنُ أَصْرَمَ قَالَ حَدَّثَنَا حَبَّانُ قَالَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ إِسْحَقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ الْفَقْرِ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ الْقِلَّةِ وَالذِّلَّةِ وَأَعُوذُ بِكَ أَنْ أَظْلِمَ أَوْ أُظْلَمَ خَالَفَهُ الْأَوْزَاعِيُّ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 5462

کتاب: اللہ تعالیٰ کی پناہ حاصل کرنے کا بیان ذلت سے ( اللہ تعالیٰ کی )پناہ حاسل کرنا حضرت ابوہریرہ ﷜سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺفرمایا کرتے تھے :’’اے اللہ !میں فقر سے تیری پناہ میں آتا ہوں اور قلت اور ذلت سے تیری پناہ حاصل کرتا ہوں‘نیز اس بات سے بھی تیری پناہ چاہتا ہوں کہ میں کسی پر ظلم کروں یا کسی کے ظلم کا تختۂ مشق بنوں ۔‘‘ اوزاعی نے اس(حماد بن سلمہ)کی مخالفت کی۔
تشریح : اوزاعی نے اس حدیث کے بیان کرنے میں حماد بن سلمہ کی مخالفت کی ہے اور وہ اس طرح کہ حماد بن سلمہ نے اسحاق بن عبد اللہ سے بیان کرتے ہوئے کہا ہے:عن سعید بن یسار عن ابی ہریرۃ جبکہ اوزاعی نے اسحاق بن عبد اللہ سے بیان کیا ہے تو کہا ہے :حدثنی جعفر بن عیاض‘قال حدثنی ابی ہریرۃ‘یعنی اوزاعی نے سعید بن یسار کی بجائے جعفر بن عیاض کہا ہے۔واللہ اعلم (1) سنن ابوداؤد مترجم ‘مطبوعہ دارالسلام ‘حدیث:1544 کے فائدے میں ابو عمار عمر فاروق سعیدی ﷾ رقم طراز ہیں کہ فقر دو طرح سے ہوتا ہے :مال کا یا دل کا ۔انسان کے پاس مال نہ ہو مگر دل کا غنی اور سیر چشم ہو تو یہ ممدوح ہے مگر اس کے بر عکس انسان’’حرص‘‘کا مریض ہو تو یہ بہت ہی قبیح خصلت ہے ‘نیز فقیری اور غریبی کی کیفیت کہ انسان ضروریات زندگی کے حصول سے محروم اور عاجز ہو کر لازمی واجبات کی ادا نہ کر سکے ‘اس سے رسول اللہﷺنے پناہ مانگی ہے ۔قلت سے مراد اعمال خیر اور ان کے اسباب کی قلت ہے اور ذلت یہ کہ انسان عصیان (اللہ تعالی ٰ نافرمانی )کا مرتکب ہو کر الل کے سامنے رسوا ہو جائے یا لوگوں کی نظروں میں اس کا وقار نہ رہے کہ اس کی دعوت ہی نہ سنی جائے ۔اس سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ اسی طراح انسان کا اپنے معاشرے میں ظالم بن جانا یا مظلوم بن جانا ‘کوئی بھی صورت ممدوح نہیں ۔(2)فقر سے مراد وہ فقر بھی ہو سکتا ہے جس سے کفر اور گمراہی کا خطرہ ہو کیونکہ عوام الناس کے لیے فقر گمراہی کا ذریعہ بن سکتا ہے ۔ہاں اللہ تعالیٰ کے خاص بندوں کے لیے مالی فقر ایک نعمت ہے ۔آپ کی دعائیں دراصل اوت کےلیے تعلیم ہیں ۔یا فقر سے مراد جسے انسان برداشت نہ کر سکے اور دست سوال دراز کرنے پر مجبور ہو جاۓ۔فقر سے فقرقلب بھی مراد ہو سکتا ہے جیسا کہ گزشتہ سطور میں ذکر ہوا ۔ (3)قلت سے مراد افراد بھی ہو سکتی ہے اور قلت مال بھی جسے اوپر فقر کہا گیا ہے ورنہ کثرت مال تو بسا اوقات گمراہی کا سبب بن جاتی ہے ۔ذلت سے مراد اوگوں کا غلبہ ہے کہ آدمی اپنا حق بھی حاصل نہ کر سکے ۔تفصیل کے لیے دیکھیے ‘حدیث :5451۔(4) اس حدیث میں ہر بعد والا لفظ پہلے کا نتیجہ ہے فقر سے قلت پیدا ہوتی ہے ‘قلت ذلت کو جنم دیتی ہے اور ذلت انسان کو مظلوم بنا دیتی ہے ۔یا وہ ت اوزاعی نے اس حدیث کے بیان کرنے میں حماد بن سلمہ کی مخالفت کی ہے اور وہ اس طرح کہ حماد بن سلمہ نے اسحاق بن عبد اللہ سے بیان کرتے ہوئے کہا ہے:عن سعید بن یسار عن ابی ہریرۃ جبکہ اوزاعی نے اسحاق بن عبد اللہ سے بیان کیا ہے تو کہا ہے :حدثنی جعفر بن عیاض‘قال حدثنی ابی ہریرۃ‘یعنی اوزاعی نے سعید بن یسار کی بجائے جعفر بن عیاض کہا ہے۔واللہ اعلم (1) سنن ابوداؤد مترجم ‘مطبوعہ دارالسلام ‘حدیث:1544 کے فائدے میں ابو عمار عمر فاروق سعیدی ﷾ رقم طراز ہیں کہ فقر دو طرح سے ہوتا ہے :مال کا یا دل کا ۔انسان کے پاس مال نہ ہو مگر دل کا غنی اور سیر چشم ہو تو یہ ممدوح ہے مگر اس کے بر عکس انسان’’حرص‘‘کا مریض ہو تو یہ بہت ہی قبیح خصلت ہے ‘نیز فقیری اور غریبی کی کیفیت کہ انسان ضروریات زندگی کے حصول سے محروم اور عاجز ہو کر لازمی واجبات کی ادا نہ کر سکے ‘اس سے رسول اللہﷺنے پناہ مانگی ہے ۔قلت سے مراد اعمال خیر اور ان کے اسباب کی قلت ہے اور ذلت یہ کہ انسان عصیان (اللہ تعالی ٰ نافرمانی )کا مرتکب ہو کر الل کے سامنے رسوا ہو جائے یا لوگوں کی نظروں میں اس کا وقار نہ رہے کہ اس کی دعوت ہی نہ سنی جائے ۔اس سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ اسی طراح انسان کا اپنے معاشرے میں ظالم بن جانا یا مظلوم بن جانا ‘کوئی بھی صورت ممدوح نہیں ۔(2)فقر سے مراد وہ فقر بھی ہو سکتا ہے جس سے کفر اور گمراہی کا خطرہ ہو کیونکہ عوام الناس کے لیے فقر گمراہی کا ذریعہ بن سکتا ہے ۔ہاں اللہ تعالیٰ کے خاص بندوں کے لیے مالی فقر ایک نعمت ہے ۔آپ کی دعائیں دراصل اوت کےلیے تعلیم ہیں ۔یا فقر سے مراد جسے انسان برداشت نہ کر سکے اور دست سوال دراز کرنے پر مجبور ہو جاۓ۔فقر سے فقرقلب بھی مراد ہو سکتا ہے جیسا کہ گزشتہ سطور میں ذکر ہوا ۔ (3)قلت سے مراد افراد بھی ہو سکتی ہے اور قلت مال بھی جسے اوپر فقر کہا گیا ہے ورنہ کثرت مال تو بسا اوقات گمراہی کا سبب بن جاتی ہے ۔ذلت سے مراد اوگوں کا غلبہ ہے کہ آدمی اپنا حق بھی حاصل نہ کر سکے ۔تفصیل کے لیے دیکھیے ‘حدیث :5451۔(4) اس حدیث میں ہر بعد والا لفظ پہلے کا نتیجہ ہے فقر سے قلت پیدا ہوتی ہے ‘قلت ذلت کو جنم دیتی ہے اور ذلت انسان کو مظلوم بنا دیتی ہے ۔یا وہ ت