سنن النسائي - حدیث 5446

كِتَابُ الِاسْتِعَاذَةِ الِاسْتِعَاذَةُ مِنْ شَرِّ السَّمْعِ وَالْبَصَرِ صحيح أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ إِسْحَقَ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ قَالَ حَدَّثَنَا سَعْدُ بْنُ أَوْسٍ قَالَ حَدَّثَنِي بِلَالُ بْنُ يَحْيَى أَنَّ شُتَيْرَ بْنَ شَكَلٍ أَخْبَرَهُ عَنْ أَبِيهِ شَكَلِ بْنِ حُمَيْدٍ قَالَ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ عَلِّمْنِي تَعَوُّذًا أَتَعَوَّذُ بِهِ فَأَخَذَ بِيَدِي ثُمَّ قَالَ قُلْ أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ سَمْعِي وَشَرِّ بَصَرِي وَشَرِّ لِسَانِي وَشَرِّ قَلْبِي وَشَرِّ مَنِيِّي قَالَ حَتَّى حَفِظْتُهَا قَالَ سَعْدٌ وَالْمَنِيُّ مَاؤُهُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 5446

کتاب: اللہ تعالیٰ کی پناہ حاصل کرنے کا بیان کان اور آنکھ کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنا حضرت شکل بن حمید ﷜سے روایت ہے ‘انھوں نے فرمایاکہ میں نبئ اکرمﷺکی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی :اے اللہ کے نبی!مجھے ایسے کلمات سکھادیجیے جن کے ساتھ میں اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کیا کروں ۔آپ نے میرا ہاتھ پکڑا اور فرمایا:’’تو یہ کلمات کہہ:اے اللہ !میں اپنے کانوں‘آنکھوں‘زبان‘دل اور منی کے شر سے تیری پناہ طلب کرتا ہوں۔‘‘میں نے یہ کلمات یاد کر لیے ۔سعد(ابن اوس راوی حدیث)نے کہا کہ منی سے مراد نطفہ ہے (اس کی برائی یہ ہے کہ اسے حرام میں بہائے)۔
تشریح : (1)یہ حدیث مبارکہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حدیث میں مذکورہ اشیاء سے ا للہ تعالیٰ کی پناہ حاصل کرنا مشروع اور پسندیدہ عمل ہے ‘لہذاہر مسلمان مرد عورت کو اس مسنون دعا کا التزام کرنا چاہیے (2)اس حدیث مبارکہ سے صحابۂ کرام ﷢کا نبئ اکرمﷺسے ایسے سوال پوچھنے کا اہتمام بھی واضح ہوتا ہے جن سے انھیں اپنے دینی اور دنیاوی معاملات میں فائدہ ہوتا اور ان سے ان کی دنیاو آخرت سنورتی ۔(3)قرآن حدیث میں مذکورہ دعاؤں سے اصل مطلوب و مقصود یہ ہے کہ بندہ ہمیشہ اور ہر حال میں اپنے رب کریم کی طرف متوجہ رہے ‘اس سے جڑا رہے ‘اس کا در نہ چھوڑے اور اسی کی بارگاہ میں اپنی ساری عاجزیاں پیش کرے ‘نیز تمام ظاہری وباطنی (اندرونی وبیرونی)تکالیف و پریشانیوں سے بچنے کے لیے حفاظت میں رہنے کی کوشش کرتا رہے ۔ان سے بچنے کے لیے اللہ کی مدد ہی سب سے بڑا اور مؤثر ذریعہ ہے۔(4)مذکورہ چیزوں کی شر سے مراد ان کا نا جائز اور بے محل استعمال ہے اور اللہ سے پناہ طلب کرنے کا مقصد ان کی حفاظت ہے کہ یہ غلط استعمال نہ ہوں۔مزید تفصیل کے لیے دیکھیۓ‘(سنن ابو داؤد (مترجم )‘فائدہ حدیث:1551۔مطبوعہ دارالسلام) (1)یہ حدیث مبارکہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حدیث میں مذکورہ اشیاء سے ا للہ تعالیٰ کی پناہ حاصل کرنا مشروع اور پسندیدہ عمل ہے ‘لہذاہر مسلمان مرد عورت کو اس مسنون دعا کا التزام کرنا چاہیے (2)اس حدیث مبارکہ سے صحابۂ کرام ﷢کا نبئ اکرمﷺسے ایسے سوال پوچھنے کا اہتمام بھی واضح ہوتا ہے جن سے انھیں اپنے دینی اور دنیاوی معاملات میں فائدہ ہوتا اور ان سے ان کی دنیاو آخرت سنورتی ۔(3)قرآن حدیث میں مذکورہ دعاؤں سے اصل مطلوب و مقصود یہ ہے کہ بندہ ہمیشہ اور ہر حال میں اپنے رب کریم کی طرف متوجہ رہے ‘اس سے جڑا رہے ‘اس کا در نہ چھوڑے اور اسی کی بارگاہ میں اپنی ساری عاجزیاں پیش کرے ‘نیز تمام ظاہری وباطنی (اندرونی وبیرونی)تکالیف و پریشانیوں سے بچنے کے لیے حفاظت میں رہنے کی کوشش کرتا رہے ۔ان سے بچنے کے لیے اللہ کی مدد ہی سب سے بڑا اور مؤثر ذریعہ ہے۔(4)مذکورہ چیزوں کی شر سے مراد ان کا نا جائز اور بے محل استعمال ہے اور اللہ سے پناہ طلب کرنے کا مقصد ان کی حفاظت ہے کہ یہ غلط استعمال نہ ہوں۔مزید تفصیل کے لیے دیکھیۓ‘(سنن ابو داؤد (مترجم )‘فائدہ حدیث:1551۔مطبوعہ دارالسلام)