سنن النسائي - حدیث 5444

كِتَابُ الِاسْتِعَاذَةِ الِاسْتِعَاذَةُ مِنْ قَلْبٍ لَا يَخْشَعُ صحيح أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ سِنَانٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ قَالَ أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي سِنَانٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي الْهُذَيْلِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَتَعَوَّذُ مِنْ أَرْبَعٍ مِنْ عِلْمٍ لَا يَنْفَعُ وَمِنْ قَلْبٍ لَا يَخْشَعُ وَدُعَاءٍ لَا يُسْمَعُ وَنَفْسٍ لَا تَشْبَعُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 5444

کتاب: اللہ تعالیٰ کی پناہ حاصل کرنے کا بیان اس دل سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرناجو اللہ تعالیٰ سے نہ ڈرے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر سے منقول ہے ۔کہ نبئ اکرم ﷺچار چیزوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب فرمایا کرتے تھے :ایسے علم سے جو نفع نہ دے ‘ایسے دل سے جو اللہ تعالیٰ سے نہ ڈرے ‘ایسی دعا سے جو قبول نہ ہو اور ایسے نفس سے جو سیر نہ ہو ۔
تشریح : (1)حدیث میں مذکورہ ان چار چیزوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ حاصل کرنا مستحب اور پسندیدہ عمل ہے ۔(2)ظاہری معنیٰ مراد نہیں بلکہ مقصود یہ ہے یا کہ اللہ!میرے علم کو مفید بنا۔دل کو عاج اور خشوع والا بنا۔میری دعائیں قبول فرما اور نفس کو قناعت پسند بنا ۔(3)آپ کا استعاذہ امت کی تعلیم اور اظہار عبودیت کے لیے تھا ورنہ آپ کو یہ پناہ پہلے سے حاصل تھی ۔اس میں یہ اشارہ ہے کہ بندے کو ہر حال میں اللہ تعا لیٰ سے ڈرتے رہنا چاہیےاور اللہ تعالیٰ کے سامنے محتاج بن کر رہنا چاہیے ۔(4)علم نافع سے مراد علم کے مطابق عمل ہے کیونکہ علم کا سب سے پہلافائدہ عالم کو ہونا چاہیے ‘پھر دوسرں کو ‘مثلا:تبلیغ و تعلیم وغیرہ ۔(5)دعا کی قبولیت سے مراد اس پر ثواب حاصل کرنا ہے نہ کہ بعینہٖبات کا پورا ہو جانا کیوں کہ یہ بہت سے امور میں ممکن نہیں ۔(6)’’نفس کے سیر نہ ہونے ‘‘سے مراد نفس کا حریص اور لالچی ہونا ہے ‘البتہ علم اور ثواب کی حرص اچھی چیز ہے ۔ واللہ اعلم (1)حدیث میں مذکورہ ان چار چیزوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ حاصل کرنا مستحب اور پسندیدہ عمل ہے ۔(2)ظاہری معنیٰ مراد نہیں بلکہ مقصود یہ ہے یا کہ اللہ!میرے علم کو مفید بنا۔دل کو عاج اور خشوع والا بنا۔میری دعائیں قبول فرما اور نفس کو قناعت پسند بنا ۔(3)آپ کا استعاذہ امت کی تعلیم اور اظہار عبودیت کے لیے تھا ورنہ آپ کو یہ پناہ پہلے سے حاصل تھی ۔اس میں یہ اشارہ ہے کہ بندے کو ہر حال میں اللہ تعا لیٰ سے ڈرتے رہنا چاہیےاور اللہ تعالیٰ کے سامنے محتاج بن کر رہنا چاہیے ۔(4)علم نافع سے مراد علم کے مطابق عمل ہے کیونکہ علم کا سب سے پہلافائدہ عالم کو ہونا چاہیے ‘پھر دوسرں کو ‘مثلا:تبلیغ و تعلیم وغیرہ ۔(5)دعا کی قبولیت سے مراد اس پر ثواب حاصل کرنا ہے نہ کہ بعینہٖبات کا پورا ہو جانا کیوں کہ یہ بہت سے امور میں ممکن نہیں ۔(6)’’نفس کے سیر نہ ہونے ‘‘سے مراد نفس کا حریص اور لالچی ہونا ہے ‘البتہ علم اور ثواب کی حرص اچھی چیز ہے ۔ واللہ اعلم