سنن النسائي - حدیث 5429

كِتَابُ آدَابِ الْقُضَاةِ كَيْفَ يَسْتَحْلِفُ الْحَاكِمُ صحيح أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَفْصٍ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ عَلَيْهِ السَّلَام رَجُلًا يَسْرِقُ فَقَالَ لَهُ أَسَرَقْتَ قَالَ لَا وَاللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ قَالَ عِيسَى عَلَيْهِ السَّلَام آمَنْتُ بِاللَّهِ وَكَذَّبْتُ بَصَرِي

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 5429

کتاب: قضا اور قاضیوں کے آداب و مسائل کا بیان حاکم قسم کس طرح لے ؟ حضرت ابوھریرہ ﷜ سے منقول ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:حضرت عیسیٰ بن مریم﷤نے ایک آدمی کو چوری کرتے ہوئے دیکھا تو آپ نےفرمایا:اوے! تو چوری کرتا ہے !اس نے کہا نہیں ۔ قسم اس اللہ کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں !حضرت عیسیٰ ﷤نے فرمایا:میں اللہ (کی قسم)پر ایمان لاتا ہوں اور اپنی آنکھ (کی دیکھی ہوئی چیز)کو جھٹلاتا ہوں ۔‘
تشریح : (1)’’جھٹلاتا ہوں‘‘مقصد یہ ہے جب کسی سے قسم لی جائے تو اس کی قسم مان لینی چاہیے ۔ اپنی بات پر نہیں اڑنا چاہیے۔کوئی جھوٹی کھائے گا تو خود بھگتے گا ۔مذکورہ واقعہ میں ممکن ہے وہ اپنی ہی چیز اٹھا رہا ہو یا دوسرے کی چیز اس کی اجازت سے اٹھا رہا ہو ۔یا صرف چیز پکڑ کر دیکھنا مقصد ہو نہ کہ اٹھا کر لے جانا وغیرہ ۔ایسے كئ احتمالات ہوسکتے ہیں ۔گویا ظاہر دیکھنے میں چوری کی صورت تھی ۔قسم سے حقیقت واضح ہو گئ۔(یہ سب کچھ تب ہے اگر وہ اپنی قسم میں سچا تھا۔)چور نے اللہ کے نام کی قسم کھا کر اپنی براءت کا اظہار کیا ‘اس لیے سیدناعیسیٰ ﷤نے اللہ تعالیٰ کے نام کی لاج رکھتے ہوئے اسے سچا سمجھااور اپنی آ نکھ کو جھوٹا قراردیا۔واللہ اعلم.(2)ہر جگہ عیسیٰ﷤کو عیسیٰ ابن مریم کہنا دلیل ہے کہ وہ بن باپ کے پیدا ہوئے تا کہ لوگوں کے لیے اپنے صدق پر معجزہ بنیں-(3)حدیث میں قسم مؤ کدومغلظ ہے ۔گویا ایسی قسم بھی لی جا سکتی ہے۔ (1)’’جھٹلاتا ہوں‘‘مقصد یہ ہے جب کسی سے قسم لی جائے تو اس کی قسم مان لینی چاہیے ۔ اپنی بات پر نہیں اڑنا چاہیے۔کوئی جھوٹی کھائے گا تو خود بھگتے گا ۔مذکورہ واقعہ میں ممکن ہے وہ اپنی ہی چیز اٹھا رہا ہو یا دوسرے کی چیز اس کی اجازت سے اٹھا رہا ہو ۔یا صرف چیز پکڑ کر دیکھنا مقصد ہو نہ کہ اٹھا کر لے جانا وغیرہ ۔ایسے كئ احتمالات ہوسکتے ہیں ۔گویا ظاہر دیکھنے میں چوری کی صورت تھی ۔قسم سے حقیقت واضح ہو گئ۔(یہ سب کچھ تب ہے اگر وہ اپنی قسم میں سچا تھا۔)چور نے اللہ کے نام کی قسم کھا کر اپنی براءت کا اظہار کیا ‘اس لیے سیدناعیسیٰ ﷤نے اللہ تعالیٰ کے نام کی لاج رکھتے ہوئے اسے سچا سمجھااور اپنی آ نکھ کو جھوٹا قراردیا۔واللہ اعلم.(2)ہر جگہ عیسیٰ﷤کو عیسیٰ ابن مریم کہنا دلیل ہے کہ وہ بن باپ کے پیدا ہوئے تا کہ لوگوں کے لیے اپنے صدق پر معجزہ بنیں-(3)حدیث میں قسم مؤ کدومغلظ ہے ۔گویا ایسی قسم بھی لی جا سکتی ہے۔