سنن النسائي - حدیث 5422

كِتَابُ آدَابِ الْقُضَاةِ قَضَاءُ الْحَاكِمِ عَلَى الْغَائِبِ إِذَا عَرَفَهُ صحيح أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ أَنْبَأَنَا وَكِيعٌ قَالَ حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ جَاءَتْ هِنْدٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أَبَا سُفْيَانَ رَجُلٌ شَحِيحٌ وَلَا يُنْفِقُ عَلَيَّ وَوَلَدِي مَا يَكْفِينِي أَفَآخُذُ مِنْ مَالِهِ وَلَا يَشْعُرُ قَالَ خُذِي مَا يَكْفِيكِ وَوَلَدِكِ بِالْمَعْرُوفِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 5422

کتاب: قضا اور قاضیوں کے آداب و مسائل کا بیان حاکم غیرموجود شخص کےبارےمیں فیصلہ کرسکتاہے جب وہ اسے پہچانتاہو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت ہند رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضرہوئی اورکہا:اےاللہ کے رسول!ابوسفیان کنجوس آدمی ہے۔ وہ نہ تو مجھے کافی اخراجات دیتاہےاورنہ میرےبچوں کےلیے۔ توکیامیں اس کے مال میں سے اس کے علم کےبغیر لےسکتی ہوں؟آپ نے فرمایا: تواتنالے سکتی ہےجوتجھےاورتیرےبچوں کومناسب اندازمیں کفایت کرے۔‘
تشریح : 1۔عنوان کامقصدیہ ہےکہ جس شخص کی بابت حاکم جانتاہوکہ یہ ایسا ہے اور اس کے متعلق کوئی مسئلہ پیش ہوجائے تواس کی عدم موجودگی میں بھی اس کے خلاف فیصلہ دیا جاسکتاہےجیسا کہ رسول اللہ ﷺنےکیاکہ نہ توحضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ کوبلایا اورنہ ان سے کچھ پوچھنا کیونکہ آپ ان کی بابت جانتےتھے۔ 2۔ کسی کی غیبت کرنا کبیرہ گناہ ہے تاہم بعض مواقع ایسے ہیں جہاں یہ شرعاًجائزہے۔امام نوی رحمتہ اللہ نےان کی تعداد چھ بیان کی ہے ۔ وہ فرماتےہیں :شرعی ضرورت کی بنا پرکسی زندہ یامردہ شخص کی غیبت کرنا مباح ہے جبکہ اس کے بغیر چارہ کارنہ ہو: کسی منکر کوتیدیل کرنےیا کرانے کےلیےکسی کی مددواستعانت کی ضرورت ہویاکسی خطاکارکودرستی کی طرف لانا مقصود ہوتواس شخص کےسامنے جوازالہ منکر کی قدرت واختیار رکھتاہومعاملے کی توضیح کرنا جائز ہ اس وقت بھی مباح ہے ۔ کسی مفتی اورعالم سے فتوی لینے کےلیے اسے حقیقت حال سے باخبر کرنا مثلا یہ کہنا کہ فلاں شخص نے مجھ پریہ ظلم کیاہے اس نے مجھے میرے حق سےمحروم کردیا ہے وغیرہ یہ بھی حرام غیبت کی قسم سے نہیں بلکہ جائز ہے ۔ کسی ظالم کےظلم اوراس کے شرسے دیگر مسلمانوں کوبچانے کےلیے اس کےسیاہ کرتوتوں سےباخبر کرنا یا اہل اسلام کوان کی خیر خواہی کےپیش نظریہ بتانا کہ فلاں شخص میں یہ کمینہ پن ہے اوروہ اس اس طرح کی گھٹیا حرکتیں کرسکتاہے لہذا تمھیں اس سے محتاط اورہوشیارہنے کی ضرورت ہے۔ رواۃ حدیث پرجرح نیز کہیں رشتے ناتےکرنے والوں کواگلےاہل خانہ کی بابت مشورہ دینااوران کی کمزوریاں اورکوتاہیاں وغیرہ بیان کرنا اسی قبیل سےہے۔ اوریہ بالاتفاق جائز اورمباح بلکہ بوقت ضرورت واجب ہے ۔ پانچواں مقام جہاں غیبت کرنا شرعا مباح ہے یہ ہے کہ کوئی شخص سرعام فسق وفجورکاارتکاب کرتاہویا پکا بدعتی ہویا برسرعام شراب پینے والا اورجوا وغیرہ کھیلنے والا ہوتودیگر لوگوں کواس کے ان مذکورہ سیاہ کارناموں کی اطلاع دینا جائز ہے تاکہ وہ اپنےآپ کواس سے محفوظ رکھ سکیں۔ چھٹا مقام یہ ہے کہ کوئی شخص کسی ایسے لقب یانام سےمعروف ہوجوظاہراًغیبت بنتا ہو مثلاً اعرج (لنگڑا ) اعمش (کمزورنگاہ والا یعنی چوندھا) اعمی (اندھا) احول(بھینگا) وغیرہ تواسے بلانا بشرطیکہ تنقیص کی نیت نہ ہوتو جائز ہےورنہ حرام ہے ۔ واللہ اعلم ۔ 3۔قاضی اورحاکم کےلیے باہم جھگڑے والوں کادرست فیصلہ کرنے کےلیے فریق مخالف سےدوسرے کی غیبت سننا مباح ہے جیسا کہ ذکر ہوچکا۔ 4۔اس حدیث مبارکہ سے یہ اہم مسئلہ بھی ثابت ہواکہ مرد کےلیے کسی اجنبی اورغیرمحرم عورت کی آواز بوقت ضررت سننا جائز ہے۔ 5۔ اس حدیث مبارکہ سےیہ بھی معلوم ہواکہ بیوی اوربچوں کاخرچہ خاوند اورباپ کے ذمے ہے۔ اکثر اہل علم کا قول ہے کہ ہ اسی قدرواجب ہے جس قدر بیوی بچوں کی جائز ضرورت ہو نیز یہ بھی معلو ہوا کہ شریعت نے جب امور کی تجدید نہیں کی ان میں عرف کالحاظ کیاجائے۔ 6۔ مناسب انداز میں یعنی تمھاری سماجی حثیت کےلحاظ سےاوریہ حیثیت بدلتی رہتی ہے ۔ امیر گھرانے میں اخراجات کی حیثیت اورہوتی ہے اورغریب گھرانے میں اور۔ 1۔عنوان کامقصدیہ ہےکہ جس شخص کی بابت حاکم جانتاہوکہ یہ ایسا ہے اور اس کے متعلق کوئی مسئلہ پیش ہوجائے تواس کی عدم موجودگی میں بھی اس کے خلاف فیصلہ دیا جاسکتاہےجیسا کہ رسول اللہ ﷺنےکیاکہ نہ توحضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ کوبلایا اورنہ ان سے کچھ پوچھنا کیونکہ آپ ان کی بابت جانتےتھے۔ 2۔ کسی کی غیبت کرنا کبیرہ گناہ ہے تاہم بعض مواقع ایسے ہیں جہاں یہ شرعاًجائزہے۔امام نوی رحمتہ اللہ نےان کی تعداد چھ بیان کی ہے ۔ وہ فرماتےہیں :شرعی ضرورت کی بنا پرکسی زندہ یامردہ شخص کی غیبت کرنا مباح ہے جبکہ اس کے بغیر چارہ کارنہ ہو: کسی منکر کوتیدیل کرنےیا کرانے کےلیےکسی کی مددواستعانت کی ضرورت ہویاکسی خطاکارکودرستی کی طرف لانا مقصود ہوتواس شخص کےسامنے جوازالہ منکر کی قدرت واختیار رکھتاہومعاملے کی توضیح کرنا جائز ہ اس وقت بھی مباح ہے ۔ کسی مفتی اورعالم سے فتوی لینے کےلیے اسے حقیقت حال سے باخبر کرنا مثلا یہ کہنا کہ فلاں شخص نے مجھ پریہ ظلم کیاہے اس نے مجھے میرے حق سےمحروم کردیا ہے وغیرہ یہ بھی حرام غیبت کی قسم سے نہیں بلکہ جائز ہے ۔ کسی ظالم کےظلم اوراس کے شرسے دیگر مسلمانوں کوبچانے کےلیے اس کےسیاہ کرتوتوں سےباخبر کرنا یا اہل اسلام کوان کی خیر خواہی کےپیش نظریہ بتانا کہ فلاں شخص میں یہ کمینہ پن ہے اوروہ اس اس طرح کی گھٹیا حرکتیں کرسکتاہے لہذا تمھیں اس سے محتاط اورہوشیارہنے کی ضرورت ہے۔ رواۃ حدیث پرجرح نیز کہیں رشتے ناتےکرنے والوں کواگلےاہل خانہ کی بابت مشورہ دینااوران کی کمزوریاں اورکوتاہیاں وغیرہ بیان کرنا اسی قبیل سےہے۔ اوریہ بالاتفاق جائز اورمباح بلکہ بوقت ضرورت واجب ہے ۔ پانچواں مقام جہاں غیبت کرنا شرعا مباح ہے یہ ہے کہ کوئی شخص سرعام فسق وفجورکاارتکاب کرتاہویا پکا بدعتی ہویا برسرعام شراب پینے والا اورجوا وغیرہ کھیلنے والا ہوتودیگر لوگوں کواس کے ان مذکورہ سیاہ کارناموں کی اطلاع دینا جائز ہے تاکہ وہ اپنےآپ کواس سے محفوظ رکھ سکیں۔ چھٹا مقام یہ ہے کہ کوئی شخص کسی ایسے لقب یانام سےمعروف ہوجوظاہراًغیبت بنتا ہو مثلاً اعرج (لنگڑا ) اعمش (کمزورنگاہ والا یعنی چوندھا) اعمی (اندھا) احول(بھینگا) وغیرہ تواسے بلانا بشرطیکہ تنقیص کی نیت نہ ہوتو جائز ہےورنہ حرام ہے ۔ واللہ اعلم ۔ 3۔قاضی اورحاکم کےلیے باہم جھگڑے والوں کادرست فیصلہ کرنے کےلیے فریق مخالف سےدوسرے کی غیبت سننا مباح ہے جیسا کہ ذکر ہوچکا۔ 4۔اس حدیث مبارکہ سے یہ اہم مسئلہ بھی ثابت ہواکہ مرد کےلیے کسی اجنبی اورغیرمحرم عورت کی آواز بوقت ضررت سننا جائز ہے۔ 5۔ اس حدیث مبارکہ سےیہ بھی معلوم ہواکہ بیوی اوربچوں کاخرچہ خاوند اورباپ کے ذمے ہے۔ اکثر اہل علم کا قول ہے کہ ہ اسی قدرواجب ہے جس قدر بیوی بچوں کی جائز ضرورت ہو نیز یہ بھی معلو ہوا کہ شریعت نے جب امور کی تجدید نہیں کی ان میں عرف کالحاظ کیاجائے۔ 6۔ مناسب انداز میں یعنی تمھاری سماجی حثیت کےلحاظ سےاوریہ حیثیت بدلتی رہتی ہے ۔ امیر گھرانے میں اخراجات کی حیثیت اورہوتی ہے اورغریب گھرانے میں اور۔