سنن النسائي - حدیث 5420

كِتَابُ آدَابِ الْقُضَاةِ مَنْعُ الْحَاكِمِ رَعِيَّتَهُ مِنْ إِتْلَافِ أَمْوَالِهِمْ وَبِهِمْ حَاجَةٌ إِلَيْهَا صحيح أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ وَاصِلِ بْنِ عَبْدِ الْأَعْلَى قَالَ حَدَّثَنَا مُحَاضِرُ بْنُ الْمُوَرِّعِ قَالَ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ عَنْ عَطَاءٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ أَعْتَقَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ غُلَامًا لَهُ عَنْ دُبُرٍ وَكَانَ مُحْتَاجًا وَكَانَ عَلَيْهِ دَيْنٌ فَبَاعَهُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِثَمَانِ مِائَةِ دِرْهَمٍ فَأَعْطَاهُ فَقَالَ اقْضِ دَيْنَكَ وَأَنْفِقْ عَلَى عِيَالِكَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 5420

کتاب: قضا اور قاضیوں کے آداب و مسائل کا بیان حاکم کا اپنی رعایاکومال ضائع کرنے سے روک دینا جب کہ ان کومال کی ضرورت بھی ہو حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ایک انصاری آدمی نے اپنا غلام مدبر کردیا جب کہ وہ خود محتاج تھا۔ اس کے ذمے قرض بھی تھا۔ رسول اللہﷺنے وہ غلام آٹھ سودرہم میں بیچ کر وہ رقم اس کو دے دی اور فرمایا:’’اپنا قرض اداکراوراپنے بال بچوں پرخرچ کر ۔‘
تشریح : 1۔امام نسائی رحمتہ اللہ نےاس مقام پر جوعنوان قائم کیا ہے اس سے ان کا مقصد یہ مسئلہ بیان کرناہے کہ حاکم کویہ حق حاصل ہے کہ وہ محتاجوں اورضرورت مندوں کوان کے مال بیچنے یا اس طرح خیرات کرنےسے جیسا کہ مذکورہ صحابی نےکیاتھا روک دے نیز اسے یہ حق بھی حاصل ہے کہ وہ مالکان کے تصرف کوکالعدم قراردے کر خود ان کےمالوں میں تصرف کرے۔ 2۔ یہ حدیث مبارکہ اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ عام صدقہ خیرات کرنےسے ادائیگی قرض مقدم ہے کیونکہ عام صدقہ خیرات کرنا نفلی عبادت ہے جبکہ قرض کی ادائیگی فرض ہے ۔ اگر نفلی عبادت نہیں کی جائے گی توزیادہ سےزیادہ یہ ہوگا کہ اجروثواب نہیں ملے گا‘بازپرس تونہیں ہوگی جبکہ قرض ادانہ کرنے کی صورت میں توجواب دہی کےساتھ ساتھ بازپرس بھی ہوگی۔ رسول اللہ ﷺنےایسے شخص کی نماز جنازہ پڑھانے سے انکار فرمادیاتھا جس کےذمے قرض تھا اور ادائیگی کےلیے کچھ نہیں تھا۔ 3۔ مدبر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس نےاس سے کہہ دیاکہ تومیرےمرنے کےبعد آزاد ہو گا۔ ظاہرہےکہ رسول اللہ ﷺغلام کونہ بیچنے تووہ اس انصاری کےمرنے کے بعدآزاد ہوجاتا‘اس لیے آپ نےاسے بیچ دیا۔ معلوم ہوا صدقہ وہی صحیح ہے جو اپنی حاجت پوری کرنے اورقرض وغیرہ کی ادائیگی کےبعدہو ورنہ صدقہ رد کردیا جائے گا۔ 1۔امام نسائی رحمتہ اللہ نےاس مقام پر جوعنوان قائم کیا ہے اس سے ان کا مقصد یہ مسئلہ بیان کرناہے کہ حاکم کویہ حق حاصل ہے کہ وہ محتاجوں اورضرورت مندوں کوان کے مال بیچنے یا اس طرح خیرات کرنےسے جیسا کہ مذکورہ صحابی نےکیاتھا روک دے نیز اسے یہ حق بھی حاصل ہے کہ وہ مالکان کے تصرف کوکالعدم قراردے کر خود ان کےمالوں میں تصرف کرے۔ 2۔ یہ حدیث مبارکہ اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ عام صدقہ خیرات کرنےسے ادائیگی قرض مقدم ہے کیونکہ عام صدقہ خیرات کرنا نفلی عبادت ہے جبکہ قرض کی ادائیگی فرض ہے ۔ اگر نفلی عبادت نہیں کی جائے گی توزیادہ سےزیادہ یہ ہوگا کہ اجروثواب نہیں ملے گا‘بازپرس تونہیں ہوگی جبکہ قرض ادانہ کرنے کی صورت میں توجواب دہی کےساتھ ساتھ بازپرس بھی ہوگی۔ رسول اللہ ﷺنےایسے شخص کی نماز جنازہ پڑھانے سے انکار فرمادیاتھا جس کےذمے قرض تھا اور ادائیگی کےلیے کچھ نہیں تھا۔ 3۔ مدبر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس نےاس سے کہہ دیاکہ تومیرےمرنے کےبعد آزاد ہو گا۔ ظاہرہےکہ رسول اللہ ﷺغلام کونہ بیچنے تووہ اس انصاری کےمرنے کے بعدآزاد ہوجاتا‘اس لیے آپ نےاسے بیچ دیا۔ معلوم ہوا صدقہ وہی صحیح ہے جو اپنی حاجت پوری کرنے اورقرض وغیرہ کی ادائیگی کےبعدہو ورنہ صدقہ رد کردیا جائے گا۔