سنن النسائي - حدیث 5419

كِتَابُ آدَابِ الْقُضَاةِ شَفَاعَةُ الْحَاكِمِ لِلْخُصُومِ قَبْلَ فَصْلِ الْحُكْمِ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ قَالَ حَدَّثَنَا خَالِدٌ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ زَوْجَ بَرِيرَةَ كَانَ عَبْدًا يُقَالُ لَهُ مُغِيثٌ كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهِ يَطُوفُ خَلْفَهَا يَبْكِي وَدُمُوعُهُ تَسِيلُ عَلَى لِحْيَتِهِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْعَبَّاسِ يَا عَبَّاسُ أَلَا تَعْجَبْ مِنْ حُبِّ مُغِيثٍ بَرِيرَةَ وَمِنْ بُغْضِ بَرِيرَةَ مُغِيثًا فَقَالَ لَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْ رَاجَعْتِيهِ فَإِنَّهُ أَبُو وَلَدِكِ قَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَتَأْمُرُنِي قَالَ إِنَّمَا أَنَا شَفِيعٌ قَالَتْ فَلَا حَاجَةَ لِي فِيهِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 5419

کتاب: قضا اور قاضیوں کے آداب و مسائل کا بیان حاکم (مقدمےکا)فصلا کرنے سے پہلے کسی فریق سےسفارش کرسکتاہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سےر وایت ہے کہ حضرت بریرہ ضی اللہ عنہا کاخاوند حضرت مغیث رضی اللہ عنہ غلام تھا۔مجھے یوں محسوس ہوتاہےکہ میں اسے بریرہ کے پیچھے گھومتے ہوئے دیکھ رہا ہوں ۔ وہ رہ رہا ہے اور اس کے آنسو اس کی ڈاڑھی پر گررہے ہیں ۔نبئ اکرم ﷺ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سےفرمایا :’’عباس ! آپ کو تعجب نہیں کہ مغیث کوبریرہ سے کس قدر محبت ہے اوربریرہ کو مغیث سے کس قدر نفرت ہے ؟‘‘ رسول اللہ ﷺ نے بریرہ سے فرمایا:’’اگرتواپنےخاوند کوقبول کرلے (توبہتر ہے)۔ آخر وہ تیرے بچوں کا باپ ہے ۔ ‘‘انھوں نے کہا: اللہ کے رسول !آپ حکم دیتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا:’’نہیں ‘میں نے توصرف سفارش کرتا ہوں ۔‘‘انھوں نے کہا:پھر مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں ۔
تشریح : 1۔ اگر کوئی فریق یا شخص کسی اہم راہنما یا حاکم وغیرہ کی سفارش قبول نہ کرے تو کوئی رحرج نہیں ۔ سفارش کرنا مشروع ہے جبکہ سفارش قبول کرنا ضروری نہیں ‘لہذا سفارش کرنے والے شخص کوسفارش قبول نہ کرنے پرغصہ نہیں کرنا چاہیے اورنہ اسے کسی قسم کا کوئی اورنقصان ہی پہنچانا چاہیے۔ 2۔اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہواکہ کسی کی درخواست کےبغیر ازخود بھی سفارش کرنا درست اور جائز ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺنے حضرت مغیث رضی اللہ عنہ کے مطالبہ سفارش کےبغیر ہی حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا سے سفارش فرمائی تھی ۔ اور پھر ان کے سفارش قبول نہ کرنے پراظہار ناراضی قطعا نہیں فرمایا ‘البتہ اصلاح کی کوشش ضرور فرمائی ہے اور یہ مستحب ہے۔ 3۔یہ حدیث مبارکہ حضر ت بریرہ رضی اللہ عنہا کےاس حسن ادب کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے جوان سے رسول اللہ ﷺکی بابت صادر ہواکہ انھوں نے پوچھا: آپ حکم فرمارہے ہیں یا سفارش؟ نیز انھوں نے صراحتا آپ کی سفارش کورد نہیں کیابلکہ یہ کہ مجھے ان کی ضرورت نہیں۔ 4۔ کسی چیز کی حد سے زیادہ محبت حیا ختم کر دیتی ہے اور آدمی اندھا بہرا ہوجاتاہے۔ 5۔ جھگڑاکرنے والے‘خواہ میاں بیو ی ہوں یا کوئی اور ان کے مابین صلح کرانا اورجھگڑا ختم کرنے کی سفارش کرنا مستحب اورپسندیدہ شرعی عمل ہے نیز مومن کے دل کو مسرور کرنا اورقلبی مسرت وخوشی بہم پہنچانا بھی مستحب ہے ۔ 6۔ یہ مسئلہ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ لونڈی آزاد ہوجائے اوراس کا خاوند ابھی غلام ہوتواسے اختیار ہے نکاح قائم رکھے یاتوڑدے۔ یہاں یہی مسئلہ تھا۔ گویا ضروری نہیں حاکم فیصلہ ہی کرے بلکہ وہ کسی ایک فریق سے دوسرے کےحق میں سفارش کرکے مصالحت بھی کراسکتا ہے بلکہ یہ افضل ہے خصوصا جہاں ٹوٹ پھوٹ کامعاملہ ہو۔ 1۔ اگر کوئی فریق یا شخص کسی اہم راہنما یا حاکم وغیرہ کی سفارش قبول نہ کرے تو کوئی رحرج نہیں ۔ سفارش کرنا مشروع ہے جبکہ سفارش قبول کرنا ضروری نہیں ‘لہذا سفارش کرنے والے شخص کوسفارش قبول نہ کرنے پرغصہ نہیں کرنا چاہیے اورنہ اسے کسی قسم کا کوئی اورنقصان ہی پہنچانا چاہیے۔ 2۔اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہواکہ کسی کی درخواست کےبغیر ازخود بھی سفارش کرنا درست اور جائز ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺنے حضرت مغیث رضی اللہ عنہ کے مطالبہ سفارش کےبغیر ہی حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا سے سفارش فرمائی تھی ۔ اور پھر ان کے سفارش قبول نہ کرنے پراظہار ناراضی قطعا نہیں فرمایا ‘البتہ اصلاح کی کوشش ضرور فرمائی ہے اور یہ مستحب ہے۔ 3۔یہ حدیث مبارکہ حضر ت بریرہ رضی اللہ عنہا کےاس حسن ادب کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے جوان سے رسول اللہ ﷺکی بابت صادر ہواکہ انھوں نے پوچھا: آپ حکم فرمارہے ہیں یا سفارش؟ نیز انھوں نے صراحتا آپ کی سفارش کورد نہیں کیابلکہ یہ کہ مجھے ان کی ضرورت نہیں۔ 4۔ کسی چیز کی حد سے زیادہ محبت حیا ختم کر دیتی ہے اور آدمی اندھا بہرا ہوجاتاہے۔ 5۔ جھگڑاکرنے والے‘خواہ میاں بیو ی ہوں یا کوئی اور ان کے مابین صلح کرانا اورجھگڑا ختم کرنے کی سفارش کرنا مستحب اورپسندیدہ شرعی عمل ہے نیز مومن کے دل کو مسرور کرنا اورقلبی مسرت وخوشی بہم پہنچانا بھی مستحب ہے ۔ 6۔ یہ مسئلہ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ لونڈی آزاد ہوجائے اوراس کا خاوند ابھی غلام ہوتواسے اختیار ہے نکاح قائم رکھے یاتوڑدے۔ یہاں یہی مسئلہ تھا۔ گویا ضروری نہیں حاکم فیصلہ ہی کرے بلکہ وہ کسی ایک فریق سے دوسرے کےحق میں سفارش کرکے مصالحت بھی کراسکتا ہے بلکہ یہ افضل ہے خصوصا جہاں ٹوٹ پھوٹ کامعاملہ ہو۔