كِتَابُ آدَابِ الْقُضَاةِ إِشَارَةُ الْحَاكِمِ عَلَى الْخَصْمِ بِالْعَفْوِ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ عَنْ عَوْفٍ قَالَ حَدَّثَنِي حَمْزَةُ أَبُو عُمَرَ الْعَائِذِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا عَلْقَمَةُ بْنُ وَائِلٍ عَنْ وَائِلٍ قَالَ شَهِدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ جَاءَ بِالْقَاتِلِ يَقُودُهُ وَلِيُّ الْمَقْتُولِ فِي نِسْعَةٍ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِوَلِيِّ الْمَقْتُولِ أَتَعْفُو قَالَ لَا قَالَ فَتَأْخُذُ الدِّيَةَ قَالَ لَا قَالَ فَتَقْتُلُهُ قَالَ نَعَمْ قَالَ اذْهَبْ بِهِ فَلَمَّا ذَهَبَ فَوَلَّى مِنْ عِنْدِهِ دَعَاهُ فَقَالَ أَتَعْفُو قَالَ لَا قَالَ فَتَأْخُذُ الدِّيَةَ قَالَ لَا قَالَ فَتَقْتُلُهُ قَالَ نَعَمْ قَالَ اذْهَبْ بِهِ فَلَمَّا ذَهَبَ فَوَلَّى مِنْ عِنْدِهِ دَعَاهُ فَقَالَ أَتَعْفُو قَالَ لَا قَالَ فَتَأْخُذُ الدِّيَةَ قَالَ لَا قَالَ فَتَقْتُلُهُ قَالَ نَعَمْ قَالَ اذْهَبْ بِهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ ذَلِكَ أَمَا إِنَّكَ إِنْ عَفَوْتَ عَنْهُ يَبُوءُ بِإِثْمِهِ وَإِثْمِ صَاحِبِكَ فَعَفَا عَنْهُ وَتَرَكَهُ فَأَنَا رَأَيْتُهُ يَجُرُّ نِسْعَتَهُ
کتاب: قضا اور قاضیوں کے آداب و مسائل کا بیان
حاکم فریق ثانی کو معافی کا مشورہ بھی دے سکتا ہے
حضرت وائل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر تھا جب ایک مقتول کا ولی قاتل کو چمڑے کی تندی کے ساتھ جکڑ کا لایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقتول کی ولی سے فرمایا: ’’کیا تو معاف کرتا ہے؟‘‘ اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’دیت لے گا؟‘‘ اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’پھر قتل کرے گا؟‘‘ اس نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ’’پھر تو اس کو لے جا۔‘‘ جب وہ اس کو لے کر چل پڑا تو آپ نے اسے بلایا اور فرمایا: ’’معاف کرے گا؟‘‘ اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’دیت لے گا؟‘‘ اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’پھر قتل ہی کرے گا؟‘‘ اس نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ’’پھر اسے لےجا۔‘‘ جب وہ لے چلا تو آپ نے پھر اسے بلایا اور فرمایا: ’’معاف کرے گا؟‘‘ اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’پھر ضرور قتل ہی کرے گا؟‘‘ اس نے کہا: جی ہاں۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر تو اسے معاف کردے تو وہ اپنے گناہ اور تیرے مقتول کے گناہ کا ذمہ دار ہوگا۔‘‘ یہ سن کر اس نے اسے معاف کر دیا اور چھوڑ دیا۔ میں نے دیکھا، وہ اپنی تندی (رسی) کو اسی طرح گھسیٹتا ہوا جا رہا تھا۔
تشریح :
جو معاملات قابل معافی ہوں، ایسے معاملات میں معافی اور صلح کی ترغیب اچھی بات ہے کیوں کہ مافی یا صلح کی صورت میں آپس میں دشمنی ختم ہو جاتی ہے۔ محبت بڑھتی ہے۔ معاشرہ پر سکون ہو جاتا ہے۔ بدلہ لینااگرچہ جائز ہے مگر بسا اوقات بدلہ لینے کی صورت میں اشتعال پیدا ہوتا ہے۔ ناراضی اور دشمنی پیدا ہوتی ہے، اس لیے شریعت نے معافی کو بدلہ لینے سے افضل قرار دیا ہے بشرطیکہ فریق ثانی عجز کے ساتھ اپنی غلطی کا اعتراف کرے اور خلوص دل سے معافی طلب کرے۔ البتہ اگر وہ تکبر اور غرور کا مظاہرہ کرے تو بدلہ لینا افضل ہے تا کہ اس متکبر کا غرور ٹوٹے۔ حاکم کے لیے مناسب ہے کہ مذکورہ بالا قسم کے مقدمات میں مصالحت کی کوشش کرے۔ اگر نہ ہو سکے تو حق کا فیصلہ کرے۔ البتہ بعض معاشرتی جرائم قابل معافی نہیں ہوتے، مثلاًَ: چوری، زنا وغیرہ ایسے مقدمات عدالت تک پہنچیں تو فیصلہ لازم ہے۔ قتل پہلی قسم میں داخل ہے۔ (روایت سے متعلقہ مزید تفصیلات کے لیے دیکھے، احادیث: 4726، 4735)
جو معاملات قابل معافی ہوں، ایسے معاملات میں معافی اور صلح کی ترغیب اچھی بات ہے کیوں کہ مافی یا صلح کی صورت میں آپس میں دشمنی ختم ہو جاتی ہے۔ محبت بڑھتی ہے۔ معاشرہ پر سکون ہو جاتا ہے۔ بدلہ لینااگرچہ جائز ہے مگر بسا اوقات بدلہ لینے کی صورت میں اشتعال پیدا ہوتا ہے۔ ناراضی اور دشمنی پیدا ہوتی ہے، اس لیے شریعت نے معافی کو بدلہ لینے سے افضل قرار دیا ہے بشرطیکہ فریق ثانی عجز کے ساتھ اپنی غلطی کا اعتراف کرے اور خلوص دل سے معافی طلب کرے۔ البتہ اگر وہ تکبر اور غرور کا مظاہرہ کرے تو بدلہ لینا افضل ہے تا کہ اس متکبر کا غرور ٹوٹے۔ حاکم کے لیے مناسب ہے کہ مذکورہ بالا قسم کے مقدمات میں مصالحت کی کوشش کرے۔ اگر نہ ہو سکے تو حق کا فیصلہ کرے۔ البتہ بعض معاشرتی جرائم قابل معافی نہیں ہوتے، مثلاًَ: چوری، زنا وغیرہ ایسے مقدمات عدالت تک پہنچیں تو فیصلہ لازم ہے۔ قتل پہلی قسم میں داخل ہے۔ (روایت سے متعلقہ مزید تفصیلات کے لیے دیکھے، احادیث: 4726، 4735)