سنن النسائي - حدیث 5415

كِتَابُ آدَابِ الْقُضَاةِ مَصِيرُ الْحَاكِمِ إِلَى رَعِيَّتِهِ لِلصُّلْحِ بَيْنَهُمْ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو حَازِمٍ قَالَ سَمِعْتُ سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ السَّاعِدِيَّ يَقُولُ وَقَعَ بَيْنَ حَيَّيْنِ مِنْ الْأَنْصَارِ كَلَامٌ حَتَّى تَرَامَوْا بِالْحِجَارَةِ فَذَهَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيُصْلِحَ بَيْنَهُمْ فَحَضَرَتْ الصَّلَاةُ فَأَذَّنَ بِلَالٌ وَانْتُظِرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاحْتُبِسَ فَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَتَقَدَّمَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ فَلَمَّا رَآهُ النَّاسُ صَفَّحُوا وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ لَا يَلْتَفِتُ فِي الصَّلَاةِ فَلَمَّا سَمِعَ تَصْفِيحَهُمْ الْتَفَتَ فَإِذَا هُوَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرَادَ أَنْ يَتَأَخَّرَ فَأَشَارَ إِلَيْهِ أَنْ اثْبُتْ فَرَفَعَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَعْنِي يَدَيْهِ ثُمَّ نَكَصَ الْقَهْقَرَى وَتَقَدَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى فَلَمَّا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ قَالَ مَا مَنَعَكَ أَنْ تَثْبُتَ قَالَ مَا كَانَ اللَّهُ لِيَرَى ابْنَ أَبِي قُحَافَةَ بَيْنَ يَدَيْ نَبِيِّهِ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ فَقَالَ مَا لَكُمْ إِذَا نَابَكُمْ شَيْءٌ فِي صَلَاتِكُمْ صَفَّحْتُمْ إِنَّ ذَلِكَ لِلنِّسَاءِ مَنْ نَابَهُ شَيْءٌ فِي صَلَاتِهِ فَلْيَقُلْ سُبْحَانَ اللَّهِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 5415

کتاب: قضا اور قاضیوں کے آداب و مسائل کا بیان حاکم کا اپنی رعایا کے درمیان صلح کروانے کے لیے جانا حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ فرماتےہیں کہ انصار کے دو قبیلوں کے درمیان جھگڑا ہو گیا حتیٰ کہ انہوں نے ایک دوسرے پر پتھر وغیرہ بھی پھینکے۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ ان کے درمیان صلح کروانے کے لیے تشریف لے گئے۔ اتنے میں نماز کا وقت ہوگیا تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے کہی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ کا انتظار کیا گیا لیکن آپ کو زیادہ دیر ہوگئی تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اقامت کہی۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آگے بڑھے (جماعت شروع کرادی) ۔ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف لے آئے جبکہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز میں ادھر توجہ نہیں کرتے تھے لیکن جب انہوں نے بہت زیادہ تالیوں کی آواز سنی تو متوجہ ہوئے۔ اچانک ان کی نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پڑی۔ انہوں نے پیچھے ہٹنے کا ارادہ کیا۔ آپ نے اشارہ فرمایا کہ اپنی جگہ ٹھہرے رہو۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے (نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس عظیم ترین عزت افزائی پر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرتے ہوئے) اپنے ہاتھ اٹھائے، پھر الٹے پاؤں پیچھے آگئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے اور نماز پڑھائی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز مکمل فرمائی تو (حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے) فرمایا: ’’تم اپنی جگہ کیوں نہ کھڑے رہے؟‘‘ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے) فرمایا: ’’تم اپنی جگہ کیوں نہ کھڑے رہے؟‘‘ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ مناسب نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ ابو قحافہ کے بیٹے کو اپنے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے کھڑا دیکھے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ’’کیاوجہ ہےئ جب تمہیں نماز میں کوئی مشکل پیش آتی ہے تو تم تالیاں بجانے لگ جاتے ہو! یہ تو عورتوں کے لیے ہے۔ جس مرد کو نماز میں کوئی مشکل پیش آئے تو وہ سبحان اللہ کہے۔‘‘
تشریح : باب کا مقصد یہ ہے کہ حاکم اس انتظار میں نہ رہے کہ لوگ لڑنے کے بعد میرے پاس آئیں گے توفیصلہ کروں گا بلکہ کوشش کرے کہ لڑائی ہو ہی نہ۔ صلح سے کام چل جائے۔ حدیث کے باقی مباحث پیچھے گزر چکے ہیں۔ باب کا مقصد یہ ہے کہ حاکم اس انتظار میں نہ رہے کہ لوگ لڑنے کے بعد میرے پاس آئیں گے توفیصلہ کروں گا بلکہ کوشش کرے کہ لڑائی ہو ہی نہ۔ صلح سے کام چل جائے۔ حدیث کے باقی مباحث پیچھے گزر چکے ہیں۔