سنن النسائي - حدیث 5411

كِتَابُ آدَابِ الْقُضَاةِ الِاسْتَعْدَاءُ صحيح أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مَنْصُورِ بْنِ جَعْفَرٍ قَالَ حَدَّثَنَا مُبَشِّرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَزِينٍ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ حُسَيْنٍ عَنْ أَبِي بِشْرٍ جَعْفَرِ بْنِ إِيَاسٍ عَنْ عَبَّادِ بْنِ شُرَحْبِيلَ قَالَ قَدِمْتُ مَعَ عُمُومَتِي الْمَدِينَةَ فَدَخَلْتُ حَائِطًا مِنْ حِيطَانِهَا فَفَرَكْتُ مِنْ سُنْبُلِهِ فَجَاءَ صَاحِبُ الْحَائِطِ فَأَخَذَ كِسَائِي وَضَرَبَنِي فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَسْتَعْدِي عَلَيْهِ فَأَرْسَلَ إِلَى الرَّجُلِ فَجَاءُوا بِهِ فَقَالَ مَا حَمَلَكَ عَلَى هَذَا فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهُ دَخَلَ حَائِطِي فَأَخَذَ مِنْ سُنْبُلِهِ فَفَرَكَهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا عَلَّمْتَهُ إِذْ كَانَ جَاهِلًا وَلَا أَطْعَمْتَهُ إِذْ كَانَ جَائِعًا ارْدُدْ عَلَيْهِ كِسَاءَهُ وَأَمَرَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِوَسْقٍ أَوْ نِصْفِ وَسْقٍ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 5411

کتاب: قضا اور قاضیوں کے آداب و مسائل کا بیان کسی کے خلاف عدالت میں دعویٰ دائر کرنا حضرت عباد بن شرجیل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فر مایا: میں اپنے چچاؤں کے ساتھ مدینہ منورہ آیا۔ میں ایک باغ میں داخل ہوا اور میں نے کچھ سٹے توڑ کر ان کے دانے نکال لیے۔ باغ کا مالک آیا، اس نے میری چادر چھین لی اور مجھے مارا بھی۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور دعویٰ دائر کر دیا۔ آپ نے اس شخص کو بلا بھیجا۔ لوگو اس کے لے کر آپ کے پاس آئے۔ آپ نے فرمایا: ’’تو نے ایسے کیوں کیا؟‘‘ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول یہ میرے باغ میں داخل ہوا۔ اس نے کچھ سٹے توڑے اور ان کے دانے نکال لیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ جاہل تھا، تو نے اسے تعلیم نہ دی۔ یہ بھوکا تھا، تونے اسے کھانے کو نہ دیا۔ اس کی چادر واپس کر۔‘‘ اور مجھے ایک یا نصف وسق دینے کا حکم جاری فرمایا۔
تشریح : 1۔ باب کا مقصد یہ ہے کہ دعویٰ دائر کرنا شرعاً جائز ہے۔ یہ فریق ثانی پر زیادتی نہیں بلکہ اپنا حق لینے کے لیے درست ہے۔ 2۔ ’’جاہل تھا‘‘ مقصود یہ ہے کہ غلطی کرنے والے کو صحیح اور درست عمل بتانا چاہیے تھا، اجنبی تھا پھر بھوکا بھی تھا، اس لیے تجھے چاہیے تھا کہ اسے پیار کے ساتھ بتاتا کہ اس طرح اپنی مرضی سے توڑنے کی بجائے مالک سے مانگ لینا چاہیے۔ پھر تو اسے کھانے کو مزید دیتا تا کہ اس کی ضرورت پوری ہوتی جب کہ تو نے اس غریب کی چادر بھی چھین لی اور مارا بھی۔ 3۔ معلوم ہوا جرائم کی سزا دینے سے پہلے لوگوں کی تولیم تربیت ضروری ہے، نیز ان کی بنیادی ضروریات بھی پوری کی جائیں تا کہ وہ جان بچانے کے لیے جرم نہ کریں۔ 4۔ اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہو اکہ ضرورت مند، بقدر ضرورت کسی کے باغ یا کھیت سے لے اور کھا سکتا ہے، البتہ اتنا زیادہ لینا درست نہیں جو ضرورت پوری ہونے کے بعد ساتھ بھی لے جائے۔ یاد رہے کہ بغیر اجازت کسی کے باغ سے کھا پی لینا ایسا جرم نہیں کہ اس پر چوری کی حد نافذ ہو بلکہ اگر وہ بھوکا ہو تو اسے کچھ نہیں کہا جائے گا اور اگر وہ بھوک کے بغیر ہو تا سے جرمانہ وغیرہ کیا جاسکتا ہے۔ اگر ضرورت محسوس ہو تو جسمانی سزا بھی دی جا سکتی ہے۔ 5۔ ’’حکم جاری فرمایا‘‘ یعنی بیت المال سے نہ کہ اس آدمی کے مال سے۔ ابو داؤد کی روایت میں صراحت ہے کہ آپ نے غلے کا ایک یا نصف وسق مجھے عطا فرمایا۔ (سنن أبی داؤد، الجہاد، حدیث:2620) 6۔ ایک اونٹ پر جتنا غلہ لادا جاتا ہے، اس ے بھی سوسق کہتے ہیں۔ 7۔ کسی کی تھوڑی بہت چیز بلا اجازت لے لینا اس چوری میں شامل نہیں جس کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے۔ اس پر مناسب تعزیر ہی کافی ہے، لبتہ بلا اجازت کسی کا مال لینے والے سے پہلے اس کا سبب معلوم کرنا چاہیے اور اگر اس کا کوئی معقول عذر ہو تو پھر اسے معاف کردینا چاہیے کیونکہ بعض حالات اس قسم کے ہوتے ہیں کہ ان میں معافی ہی درست ہوتی ہے۔ 8۔ اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ایسے مستحق شخص کی مدد بیت المال اور حکومتی خزانے سے کرنی چاہیے۔ یہ اس کا حق ہے۔ 1۔ باب کا مقصد یہ ہے کہ دعویٰ دائر کرنا شرعاً جائز ہے۔ یہ فریق ثانی پر زیادتی نہیں بلکہ اپنا حق لینے کے لیے درست ہے۔ 2۔ ’’جاہل تھا‘‘ مقصود یہ ہے کہ غلطی کرنے والے کو صحیح اور درست عمل بتانا چاہیے تھا، اجنبی تھا پھر بھوکا بھی تھا، اس لیے تجھے چاہیے تھا کہ اسے پیار کے ساتھ بتاتا کہ اس طرح اپنی مرضی سے توڑنے کی بجائے مالک سے مانگ لینا چاہیے۔ پھر تو اسے کھانے کو مزید دیتا تا کہ اس کی ضرورت پوری ہوتی جب کہ تو نے اس غریب کی چادر بھی چھین لی اور مارا بھی۔ 3۔ معلوم ہوا جرائم کی سزا دینے سے پہلے لوگوں کی تولیم تربیت ضروری ہے، نیز ان کی بنیادی ضروریات بھی پوری کی جائیں تا کہ وہ جان بچانے کے لیے جرم نہ کریں۔ 4۔ اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہو اکہ ضرورت مند، بقدر ضرورت کسی کے باغ یا کھیت سے لے اور کھا سکتا ہے، البتہ اتنا زیادہ لینا درست نہیں جو ضرورت پوری ہونے کے بعد ساتھ بھی لے جائے۔ یاد رہے کہ بغیر اجازت کسی کے باغ سے کھا پی لینا ایسا جرم نہیں کہ اس پر چوری کی حد نافذ ہو بلکہ اگر وہ بھوکا ہو تو اسے کچھ نہیں کہا جائے گا اور اگر وہ بھوک کے بغیر ہو تا سے جرمانہ وغیرہ کیا جاسکتا ہے۔ اگر ضرورت محسوس ہو تو جسمانی سزا بھی دی جا سکتی ہے۔ 5۔ ’’حکم جاری فرمایا‘‘ یعنی بیت المال سے نہ کہ اس آدمی کے مال سے۔ ابو داؤد کی روایت میں صراحت ہے کہ آپ نے غلے کا ایک یا نصف وسق مجھے عطا فرمایا۔ (سنن أبی داؤد، الجہاد، حدیث:2620) 6۔ ایک اونٹ پر جتنا غلہ لادا جاتا ہے، اس ے بھی سوسق کہتے ہیں۔ 7۔ کسی کی تھوڑی بہت چیز بلا اجازت لے لینا اس چوری میں شامل نہیں جس کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے۔ اس پر مناسب تعزیر ہی کافی ہے، لبتہ بلا اجازت کسی کا مال لینے والے سے پہلے اس کا سبب معلوم کرنا چاہیے اور اگر اس کا کوئی معقول عذر ہو تو پھر اسے معاف کردینا چاہیے کیونکہ بعض حالات اس قسم کے ہوتے ہیں کہ ان میں معافی ہی درست ہوتی ہے۔ 8۔ اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ایسے مستحق شخص کی مدد بیت المال اور حکومتی خزانے سے کرنی چاہیے۔ یہ اس کا حق ہے۔