كِتَابُ آدَابِ الْقُضَاةِ حُكْمُ الْحَاكِمِ فِي دَارِهِ صحيح أَخْبَرَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ قَالَ أَنْبَأَنَا يُونُسُ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ تَقَاضَى ابْنَ أَبِي حَدْرَدٍ دَيْنًا كَانَ عَلَيْهِ فَارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُهُمَا حَتَّى سَمِعَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي بَيْتِهِ فَخَرَجَ إِلَيْهِمَا فَكَشَفَ سِتْرَ حُجْرَتِهِ فَنَادَى يَا كَعْبُ قَالَ لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ ضَعْ مِنْ دَيْنِكَ هَذَا وَأَوْمَأَ إِلَى الشَّطْرِ قَالَ قَدْ فَعَلْتُ قَالَ قُمْ فَاقْضِهِ
کتاب: قضا اور قاضیوں کے آداب و مسائل کا بیان
حاکم یا قاضی کا اپنے گھر میں فیصلہ کرنا
حضرت کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے ابن حدرد سے اپنے قرض کی واپسی کا مطالبہ کیا جو اس کے ذمے تھا۔ ہماری آوازیں اونچی ہو گئیں حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی سن لیں۔ آپ اپنے گھر میں تشریف فرماتھے۔ آپ باہر تشریف لائے۔ اپنے حجرۂ مبارک کا پردہ ہٹایا اور بلند آواز سے فرمایا: ’’اے کعب!‘‘ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں حاضر ہوں۔ آپ نے فرمایا: ’’اتنا معاف کردے۔‘‘ اور ہاتھ سے نصف کا اشارہ فرمایا۔ میں نے کہا: مان لیا۔ آپ نے (ابن ابی حدرد سے) فرمایا: ’’اٹھ اور باقی ادا کر۔‘‘
تشریح :
1۔ کسی ضروت کی بنا پر حاکم یا قاضی وغیر اپنے گھر میں یا ’’کمرۂ عدالت‘‘ سے باہر کوئی فیصلہ کرے تو یہ جائز ہے۔ بشر طیکہ اس کی وجہ سے لوگوں کے لیے کوئی مشکل یا تکلیف وغیرہ نہ ہو۔
2۔ اس ھدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ اگر بوقت ضرورت کبھی مسجد میں آواز اونچی ہو جائے تو کوئی حرج نہیں، البتہ اس کو معمول بنانا اور خواہ مخواہ اپنی آواز مسجد میں بلند اور اونچی کرنا درست نہیں۔
3۔ اس ھدیث مبارکہ سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ ایسا اشارہ جس سے مفہوم سمجھ میں آجائے وہ بمنزلہ لام کے ہوتا ہے کیونکہ اس اشارے کی دلالت کلام پر ہوتی ہے۔ بنا بریں گونگے کی گواہی، اس کی قسم ، اس کی خریدو فروخت اور4 دیگر معاملات درست قرار پائیں گے۔
4۔ یہ حدیث اس مسئلے کی بھی وضاحت کرتی ہے ہے کہ اگر صاحب حق سے سفا رش کرکے اس کے حق میں سے سارا یا کچھ معاف کر الیا جائے تو ایسا کرنا شرعاً درست ہے، نیز صاحب حق یا کسی دوسرے شخص کو اگر جائز سفارش کی جائے، تو سے سفارش قبول کر لینی چاہیے۔
5۔ مسجد میں ادائیگی قرض کا مطالبہ اور تقاضا کرنا درست ہے، نیز قرض کے علاوہ اپنےدیگر حقوق کا مطالبہ بھی مسجد میں کیا جاسکتا ہے۔
6۔ اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہو اکہ کسی ضرورت کی بنا پر کھڑکیوں اور دروازوں پرپردے لٹکانا شرعاً جائز داور درست ہے۔
1۔ کسی ضروت کی بنا پر حاکم یا قاضی وغیر اپنے گھر میں یا ’’کمرۂ عدالت‘‘ سے باہر کوئی فیصلہ کرے تو یہ جائز ہے۔ بشر طیکہ اس کی وجہ سے لوگوں کے لیے کوئی مشکل یا تکلیف وغیرہ نہ ہو۔
2۔ اس ھدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ اگر بوقت ضرورت کبھی مسجد میں آواز اونچی ہو جائے تو کوئی حرج نہیں، البتہ اس کو معمول بنانا اور خواہ مخواہ اپنی آواز مسجد میں بلند اور اونچی کرنا درست نہیں۔
3۔ اس ھدیث مبارکہ سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ ایسا اشارہ جس سے مفہوم سمجھ میں آجائے وہ بمنزلہ لام کے ہوتا ہے کیونکہ اس اشارے کی دلالت کلام پر ہوتی ہے۔ بنا بریں گونگے کی گواہی، اس کی قسم ، اس کی خریدو فروخت اور4 دیگر معاملات درست قرار پائیں گے۔
4۔ یہ حدیث اس مسئلے کی بھی وضاحت کرتی ہے ہے کہ اگر صاحب حق سے سفا رش کرکے اس کے حق میں سے سارا یا کچھ معاف کر الیا جائے تو ایسا کرنا شرعاً درست ہے، نیز صاحب حق یا کسی دوسرے شخص کو اگر جائز سفارش کی جائے، تو سے سفارش قبول کر لینی چاہیے۔
5۔ مسجد میں ادائیگی قرض کا مطالبہ اور تقاضا کرنا درست ہے، نیز قرض کے علاوہ اپنےدیگر حقوق کا مطالبہ بھی مسجد میں کیا جاسکتا ہے۔
6۔ اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہو اکہ کسی ضرورت کی بنا پر کھڑکیوں اور دروازوں پرپردے لٹکانا شرعاً جائز داور درست ہے۔