سنن النسائي - حدیث 5409

كِتَابُ آدَابِ الْقُضَاةِ الرُّخْصَةُ لِلْحَاكِمِ الْأَمِينِ أَنْ يَحْكُمَ وَهُوَ غَضْبَانُ صحيح أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ عَنْ ابْنِ وَهْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِي يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ وَاللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ أَنَّ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ حَدَّثَهُ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ حَدَّثَهُ عَنْ الزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ أَنَّهُ خَاصَمَ رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ قَدْ شَهِدَ بَدْرًا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي شِرَاجِ الْحَرَّةِ كَانَا يَسْقِيَانِ بِهِ كِلَاهُمَا النَّخْلَ فَقَالَ الْأَنْصَارِيُّ سَرِّحْ الْمَاءَ يَمُرُّ عَلَيْهِ فَأَبَى عَلَيْهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْقِ يَا زُبَيْرُ ثُمَّ أَرْسِلْ الْمَاءَ إِلَى جَارِكَ فَغَضِبَ الْأَنْصَارِيُّ وَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنْ كَانَ ابْنَ عَمَّتِكَ فَتَلَوَّنَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ يَا زُبَيْرُ اسْقِ ثُمَّ احْبِسْ الْمَاءَ حَتَّى يَرْجِعَ إِلَى الْجَدْرِ فَاسْتَوْفَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلزُّبَيْرِ حَقَّهُ وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْلَ ذَلِكَ أَشَارَ عَلَى الزُّبَيْرِ بِرَأْيٍ فِيهِ السَّعَةُ لَهُ وَلِلْأَنْصَارِيِّ فَلَمَّا أَحْفَظَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْأَنْصَارِيُّ اسْتَوْفَى لِلزُّبَيْرِ حَقَّهُ فِي صَرِيحِ الْحُكْمِ قَالَ الزُّبَيْرُ لَا أَحْسَبُ هَذِهِ الْآيَةَ أُنْزِلَتْ إِلَّا فِي ذَلِكَ فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ(النساء4:65) وَأَحَدُهُمَا يَزِيدُ عَلَى صَاحِبِهِ فِي الْقِصَّةِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 5409

کتاب: قضا اور قاضیوں کے آداب و مسائل کا بیان جس حاکم کے بارے میں غلطی کا خطرہ نہ ہو، وہ غصے کی حالت میں فیصلہ کر سکتا ہے۔ حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کا ایک انصارآدمی سے، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں جنگ بدر میں حاضر ہوئے تھے، حرہ کے برساتی نالوں (کے پانی) کے بارے میں جھگڑا ہو گیا۔ وہ دونوں اس برساتی نالے سے کھجور کے درختوں کو پانی لگاتے تھے۔ اس انصاری نے کہا: پانی گرزنے دو تا کہ میرے کھیت کو لگے۔ میں نے انکار کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’زبیر! ہلکا سا پانی لگا لو پھر اپنے پڑوسی کی طرف چھوڑ دو۔‘‘ انصاری کو غصہ آگیا اور ا س نے کہا: اللہ کے رسول! (آپ نے یہ فیصلہ اس لیے کی ہے کہ) یہ آپ کی پھوپھی کا بیٹا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ انور غصے سے بدل گیا۔ پھر آپ نے فرمایا: ’’زبیر! پانی لگا اور پھر لگنے دے حتیٰ کہ پانی منڈیروں تک پہنچ جائے۔‘‘ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زبیر کو ان کا پورا حق دلوایا جب کہ اس سے پہلے آپ نے حضرت زبیر کو ایسا مشورہ دیا تھا جس میں زبیر اور انصاری دونوں کے لیے بہتری تھی لیکن جب انصاری نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ناراض کر دیا تو آپ نے واضح فیصلہ کی صورت میں زبیر کو ان کا پورا حق دلایا۔ حضرت زبیر رضی اللہ نے فرمایا: میرا خیال ہے کہ یہ آیت اسی (یا اس جیسے) واقعہ کے بارے میں اتری: ’’آپ کے رب تعالیٰ کی قسم! یہ لوگ صاحب ایمان نہیں ہو سکتے جب تک آپ کو اپنے اختلافی مسائل میں حکم نہ مان لیں‘‘ (یونس بن عبد الاعلیٰ اور حارث بن مسکین) دونوں میں سے ہر ایک مذکورہ قصہ اپنے دوسرے ساتھی کے مقابلے میں کمی بیشی کے ساتھ روایت کرتا ہے۔
تشریح : 1۔جو پانی قدرتی طریقے سے بہتا ہو، اس کا اصول اور ضابطہ یہ ہے کہ ایسے پانی کے استعمال پر سب سے پہلا حق اس کا ہے جو اس کی طرف سبقت لے جائے اور اسی کی زمین وغیرہ ابتدا میں ہو۔ ایسے شخص کو اپنی زمین، کھیتی اور باغات وغیرہ مکمل طور پر سیراب کرنے کا حق ہے، تاہم اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ جب اس کی ضرورت پوری ہو جائے تو پھر اس پانی کو آگے والے لوگوں کے لیے چھوڑ دے۔ اس پانی کو روک رکھنے کا حق پہلے شخص کو قطعا! نہیں۔ 2۔ حاکم کو یہ حق حاصل ہے کہ اگر وہ مناسب سمجھے تو باہم جھگڑنے والے فریقوں میں درمیانی راہ نکال کر صلح کرادے۔ فریقین اس پر راضی نہ ہوں تو حقیقی فیصلہ کردے اورہر فریق کو اس کا پورا پورا حق دلادے۔ 3۔ یہ صحابی انصاری اور بدری تھےا ور بدری صحابہ کے بارے میں قرآن و حدیث کی نصوص سے ثابت ہے کہ وہ قطعاً مومن اور جنتی ہیں، لۃذ انصاری سے لافاظ نفاق کی بنا پر نہیں بلکہ وقتی جذبات کے تحت صادر ہوئے تبھی تو آپ کے حتمی فیصلے پر اس نے سر تسلیم خم کر دیا اور کوئی اعتراض نہیں کیا۔ یہی اس کے ایمان کی دلیل ہے۔ ویسے بھی آپ نے پہلے فیصلہ نہیں فرمایا تھا بلکہ مصالحت کا مشورہ دیا تھا۔ جب مصالحت کار گر نہ ہوئی تو آپ نے حتمی فیصلہ دے دیا۔ 4۔ باب کا مقصود یہ ہے کہ غصے کی حالت میں بھی غلطی کا امکان نہیں ۔۔ اس بارے میں سابقہ حدیث کا فائدہ بھی ملحوظ رکھا جائے۔ 1۔جو پانی قدرتی طریقے سے بہتا ہو، اس کا اصول اور ضابطہ یہ ہے کہ ایسے پانی کے استعمال پر سب سے پہلا حق اس کا ہے جو اس کی طرف سبقت لے جائے اور اسی کی زمین وغیرہ ابتدا میں ہو۔ ایسے شخص کو اپنی زمین، کھیتی اور باغات وغیرہ مکمل طور پر سیراب کرنے کا حق ہے، تاہم اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ جب اس کی ضرورت پوری ہو جائے تو پھر اس پانی کو آگے والے لوگوں کے لیے چھوڑ دے۔ اس پانی کو روک رکھنے کا حق پہلے شخص کو قطعا! نہیں۔ 2۔ حاکم کو یہ حق حاصل ہے کہ اگر وہ مناسب سمجھے تو باہم جھگڑنے والے فریقوں میں درمیانی راہ نکال کر صلح کرادے۔ فریقین اس پر راضی نہ ہوں تو حقیقی فیصلہ کردے اورہر فریق کو اس کا پورا پورا حق دلادے۔ 3۔ یہ صحابی انصاری اور بدری تھےا ور بدری صحابہ کے بارے میں قرآن و حدیث کی نصوص سے ثابت ہے کہ وہ قطعاً مومن اور جنتی ہیں، لۃذ انصاری سے لافاظ نفاق کی بنا پر نہیں بلکہ وقتی جذبات کے تحت صادر ہوئے تبھی تو آپ کے حتمی فیصلے پر اس نے سر تسلیم خم کر دیا اور کوئی اعتراض نہیں کیا۔ یہی اس کے ایمان کی دلیل ہے۔ ویسے بھی آپ نے پہلے فیصلہ نہیں فرمایا تھا بلکہ مصالحت کا مشورہ دیا تھا۔ جب مصالحت کار گر نہ ہوئی تو آپ نے حتمی فیصلہ دے دیا۔ 4۔ باب کا مقصود یہ ہے کہ غصے کی حالت میں بھی غلطی کا امکان نہیں ۔۔ اس بارے میں سابقہ حدیث کا فائدہ بھی ملحوظ رکھا جائے۔