سنن النسائي - حدیث 5407

كِتَابُ آدَابِ الْقُضَاةِ بَاب الرَّدِّ عَلَى الْحَاكِمِ إِذَا قَضَى بِغَيْرِ الْحَقِّ صحيح أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّا بْنُ يَحْيَى قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ حَمَّادٍ قَالَ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ السَّرِيِّ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ مَعْمَرٍ ح وَأَنْبَأَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ قَالَ حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ بَعَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ إِلَى بَنِي جَذِيمَةَ فَدَعَاهُمْ إِلَى الْإِسْلَامِ فَلَمْ يُحْسِنُوا أَنْ يَقُولُوا أَسْلَمْنَا فَجَعَلُوا يَقُولُونَ صَبَأْنَا وَجَعَلَ خَالِدٌ قَتْلًا وَأَسْرًا قَالَ فَدَفَعَ إِلَى كُلِّ رَجُلٍ أَسِيرَهُ حَتَّى إِذَا أَصْبَحَ يَوْمُنَا أَمَرَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ أَنْ يَقْتُلَ كُلُّ رَجُلٍ مِنَّا أَسِيرَهُ قَالَ ابْنُ عُمَرَ فَقُلْتُ وَاللَّهِ لَا أَقْتُلُ أَسِيرِي وَلَا يَقْتُلُ أَحَدٌ وَقَالَ بِشْرٌ مِنْ أَصْحَابِي أَسِيرَهُ قَالَ فَقَدِمْنَا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذُكِرَ لَهُ صُنْعُ خَالِدٍ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ اللَّهُمَّ إِنِّي أَبْرَأُ إِلَيْكَ مِمَّا صَنَعَ خَالِدٌ قَالَ زَكَرِيَّا فِي حَدِيثِهِ فَذُكِرَ وَفِي حَدِيثِ بِشْرٍ فَقَالَ اللَّهُمَّ إِنِّي أَبْرَأُ إِلَيْكَ مِمَّا صَنَعَ خَالِدٌ مَرَّتَيْنِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 5407

کتاب: قضا اور قاضیوں کے آداب و مسائل کا بیان حاکم کا ناحق کیا ہوا فیصلہ رد کرنے کا بیان حضرت سالم کے والد محترم (حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خالد بن ولیدکو بنو جذیمہ کی طرف بھیجا۔ حضرت خالد نے ان کو اسلام کی دعوت دی۔ وہ (مسلمان ہو گئے لیکن) اچھی طرح یہ نہ کہہ سکے کہ ہم مسلمان ہوگئے اور کہنے لگے: ہم نے اپنا دین چھوڑا (أسلمنا کہنے کی بجائے صبأنا، صبأنا کہنے لگے) حضرت خالد ان کو قتل اور قید کرنے لگ گئے۔ انہوں نے (ہم میں سے) ہر شخص کو اس کا قیدی سپرد کر دیا۔ اگلے دن صبح کے وقت حضرت خالد بن ولید نے حکم دیا کہ ہر شخص اپنا قیدی قتل کر دے۔ عبد اللہ بن عمر نے کہا: اللہ کی قسم! میں اپنا قیدی قتل نہیں کروں گا اور میرے ساتھیوں میں سے کوئی دوسرابھی اپنا قیدی قتل نہیں کرے گا۔ پھر ہم نے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ سے حضرت خالد کی یہ کار گزاری ذکر کی گئی۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور فرمایا: ’’اے اللہ! میں اس کام سے بری ہوں جو خالد نے کیا۔‘‘ آپ نے یہ دو مرتبہ فرمایا۔
تشریح : 1۔ امام نسائی رحمہ اللہ نے جو عنوان قائم کیا ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ اگر کوئی حاکم و امیر وغیرہ غلط فیصلہ کرے تو وہ فیصلہ مردود قرار پائے گا، اس لیے اس پر عمل نہیں کیا جائے گا جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے شرعی امیر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا فیصلہ اور حکم ماننے سے انکار کر دیا۔ بعد ازاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کی تائید فرمائی۔ 2۔ اس حدیث مبارکہ سے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی عظمت کردار اور استقامت دین کے ساتھ ان کا دین پرسختی سے عمل پیرا ہونے کا حقیقی جذبہ بھی معلوم ہوا، نیز یہ بھی واضح ہوا کہ دینی معاملات میں آپ نہایت جراأت مند تھے۔ 3۔ یہ حدیث مبارکہ اس اہم مسئلے کے لیے بھی نص صریح کی حیثیت رکھتی ہے کہ خالق کی معصیت کرتے ہوئے، مخلوق میں سے کسی بھی بڑی سے بڑی شخصیت کی اطاعت کرنا اور اس کی بات ماننا حرام اور ناجائز ہے۔ 4۔ کافر مسلمان کو صابی کہتے تھے۔ اس کے معنی ہیں: اپنے دین سے نکل جانے والا۔ وہ اس سے بے دین مراد لیتے تھے۔ صبأنا اسی سے ہے۔ بنو جزیمہ کا مقصود تو یہ تھا کہ ہم اپنے آبائی دین سے نکل کر مسلمان ہو چکے ہیں مگر انہوں نے وہ لفظ استعمال کیا جو کفار طنزاً مسلمانوں کے لیے استعمال کرتے تھے۔ اسی سے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو غلط فہمی ہوئی کہ شاید یہ اپنے کفر پر قائم ہیں اور ہمیں طنز کر رہے ہیں حالانکہ یہ بات نہیں تھی۔ حضرت خالد نے تادیبی کاروائی شروع کردی۔ چونکہ یہ ان کی اجتہادی غلطی تھی، اس لیے رسول اللہ علیہ وسلم نے صرف براءت کے اظہار پر اکتفا کیا اور انہیں کوئی سزا نہیں دی۔ 1۔ امام نسائی رحمہ اللہ نے جو عنوان قائم کیا ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ اگر کوئی حاکم و امیر وغیرہ غلط فیصلہ کرے تو وہ فیصلہ مردود قرار پائے گا، اس لیے اس پر عمل نہیں کیا جائے گا جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے شرعی امیر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا فیصلہ اور حکم ماننے سے انکار کر دیا۔ بعد ازاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کی تائید فرمائی۔ 2۔ اس حدیث مبارکہ سے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی عظمت کردار اور استقامت دین کے ساتھ ان کا دین پرسختی سے عمل پیرا ہونے کا حقیقی جذبہ بھی معلوم ہوا، نیز یہ بھی واضح ہوا کہ دینی معاملات میں آپ نہایت جراأت مند تھے۔ 3۔ یہ حدیث مبارکہ اس اہم مسئلے کے لیے بھی نص صریح کی حیثیت رکھتی ہے کہ خالق کی معصیت کرتے ہوئے، مخلوق میں سے کسی بھی بڑی سے بڑی شخصیت کی اطاعت کرنا اور اس کی بات ماننا حرام اور ناجائز ہے۔ 4۔ کافر مسلمان کو صابی کہتے تھے۔ اس کے معنی ہیں: اپنے دین سے نکل جانے والا۔ وہ اس سے بے دین مراد لیتے تھے۔ صبأنا اسی سے ہے۔ بنو جزیمہ کا مقصود تو یہ تھا کہ ہم اپنے آبائی دین سے نکل کر مسلمان ہو چکے ہیں مگر انہوں نے وہ لفظ استعمال کیا جو کفار طنزاً مسلمانوں کے لیے استعمال کرتے تھے۔ اسی سے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو غلط فہمی ہوئی کہ شاید یہ اپنے کفر پر قائم ہیں اور ہمیں طنز کر رہے ہیں حالانکہ یہ بات نہیں تھی۔ حضرت خالد نے تادیبی کاروائی شروع کردی۔ چونکہ یہ ان کی اجتہادی غلطی تھی، اس لیے رسول اللہ علیہ وسلم نے صرف براءت کے اظہار پر اکتفا کیا اور انہیں کوئی سزا نہیں دی۔