سنن النسائي - حدیث 5404

كِتَابُ آدَابِ الْقُضَاةِ حُكْمُ الْحَاكِمِ بِعِلْمِهِ صحيح أَخْبَرَنَا عِمْرَانُ بْنُ بَكَّارِ بْنِ رَاشِدٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَيَّاشٍ قَالَ حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو الزِّنَادِ مِمَّا حَدَّثَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجُ مِمَّا ذَكَرَ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ يُحَدِّثُ بِهِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ وَقَالَ بَيْنَمَا امْرَأَتَانِ مَعَهُمَا ابْنَاهُمَا جَاءَ الذِّئْبُ فَذَهَبَ بِابْنِ إِحْدَاهُمَا فَقَالَتْ هَذِهِ لِصَاحِبَتِهَا إِنَّمَا ذَهَبَ بِابْنِكِ وَقَالَتْ الْأُخْرَى إِنَّمَا ذَهَبَ بِابْنِكِ فَتَحَاكَمَتَا إِلَى دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَام فَقَضَى بِهِ لِلْكُبْرَى فَخَرَجَتَا إِلَى سُلَيْمَانَ بْنِ دَاوُدَ فَأَخْبَرَتَاهُ فَقَالَ ائْتُونِي بِالسِّكِّينِ أَشُقُّهُ بَيْنَهُمَا فَقَالَتْ الصُّغْرَى لَا تَفْعَلْ يَرْحَمُكَ اللَّهُ هُوَ ابْنُهَا فَقَضَى بِهِ لِلصُّغْرَى قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ وَاللَّهِ مَا سَمِعْتُ بِالسِّكِّينِ قَطُّ إِلَّا يَوْمَئِذٍ مَا كُنَّا نَقُولُ إِلَّا الْمُدْيَةَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 5404

کتاب: قضا اور قاضیوں کے آداب و مسائل کا بیان قاضی کا اپنے علم (اور ذہانت) سے فیصلہ کرنا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے فرمایا: ’’دو عورتیں تھیں۔ ان کے ساتھ ان کے دو بیٹے بھی تھے۔ بھیڑیا آیا اور ایک کے بیٹے کو اٹھا کر لے گیا۔ یہ (جس کا بچہ بھیڑیا اٹھا کر لےگیا) دوسری کو کہنے لگی: وہ تیرے بیٹے کو لے گیا ہے۔ دونوں حضرت داود علیہ السلام کے پاس فیصل لے گئیں۔ آپ نے بڑی کے حق میں فیصل کر دیا ۔ وہ باہر نکلیں تو حضرت سلیمان بن داؤد علیہ السلام ملے۔ انہوں نے ان سے پورا واقعہ بیان کیا۔ آپ نے فرمایا: میرے پاس چھری لاؤ۔ میں اسے کاٹ کر دونوں میں تقسیم کردوں۔ چھوٹی بولی: اللہ تعالیٰ آپ رحم کرے! ایسے نہ کریں۔ یہ اسی کا بیٹا ہے آپ نے وہ چھوٹی کو دے دیا۔‘‘ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ نے فرمایا: میں نے سِکِّیْن کا لفظ اسی دن سنا ورنہ ہم چھری کو مُدْیَہُ کہتے تھے۔
تشریح : 1۔ ’’بڑی کے حق یں‘‘ کیونکہ بچہ اس کے ہاتھ میں تھا۔ دلیل کسی کے پاس نہیں تھی۔ انہوں نے ظاہری قبضے کی رعایت سے فیصلہ کر دیا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے حکمت سے کام لیا اور حقیقت تک پہنچ گئے۔ باب کا مقصد بھی یہی ہے کہ قاضی اپنی ذہانت سے بھی معاملے کیہ تہہ تک پہنچ کر حقیقت کے مطابق فیصلہ کر سکتا ہے، خواہ گوہ اور دلائل ن ہ ہوں مگر یہ تب ہے جب حاکم یا قاضی کے خلاف بدگمانی پیدا نہ ہوتی ہو، نیز فریق ثانی بھی چپ ہو جائے اور مان لے۔ 2۔ ’’یہ اسی کا ہے‘‘ کیونکہ کاٹ دینے اور ٹکڑے کرنے سے کسی کا بھی نہیں رہے گا۔ اس کو دینے کی صورت میں بچہ نظر توآئے گا اور ممتا کو کچھ نہ کچھ سکون تو ملتا رہے گا۔ اسی سے معلوم ہوا کہ بیٹا اس کا ہے تبھی تو اسے زیادہ تکلیف ہوئی۔ 3۔ ’’سکین‘‘ عربی میں چھری کو سکین کہتے ہیں اور مدیہ بھی۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے علاقے میں صرف مدیہ کہتے ہوں گے۔ 1۔ ’’بڑی کے حق یں‘‘ کیونکہ بچہ اس کے ہاتھ میں تھا۔ دلیل کسی کے پاس نہیں تھی۔ انہوں نے ظاہری قبضے کی رعایت سے فیصلہ کر دیا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے حکمت سے کام لیا اور حقیقت تک پہنچ گئے۔ باب کا مقصد بھی یہی ہے کہ قاضی اپنی ذہانت سے بھی معاملے کیہ تہہ تک پہنچ کر حقیقت کے مطابق فیصلہ کر سکتا ہے، خواہ گوہ اور دلائل ن ہ ہوں مگر یہ تب ہے جب حاکم یا قاضی کے خلاف بدگمانی پیدا نہ ہوتی ہو، نیز فریق ثانی بھی چپ ہو جائے اور مان لے۔ 2۔ ’’یہ اسی کا ہے‘‘ کیونکہ کاٹ دینے اور ٹکڑے کرنے سے کسی کا بھی نہیں رہے گا۔ اس کو دینے کی صورت میں بچہ نظر توآئے گا اور ممتا کو کچھ نہ کچھ سکون تو ملتا رہے گا۔ اسی سے معلوم ہوا کہ بیٹا اس کا ہے تبھی تو اسے زیادہ تکلیف ہوئی۔ 3۔ ’’سکین‘‘ عربی میں چھری کو سکین کہتے ہیں اور مدیہ بھی۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے علاقے میں صرف مدیہ کہتے ہوں گے۔