سنن النسائي - حدیث 5402

كِتَابُ آدَابِ الْقُضَاةِ تَأْوِيلُ قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمْ الْكَافِرُونَ صحيح الإسناد موقوف أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ قَالَ أَنْبَأَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى عَنْ سُفْيَانَ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كَانَتْ مُلُوكٌ بَعْدَ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَامُ بَدَّلُوا التَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيلَ وَكَانَ فِيهِمْ مُؤْمِنُونَ يَقْرَءُونَ التَّوْرَاةَ قِيلَ لِمُلُوكِهِمْ مَا نَجِدُ شَتْمًا أَشَدَّ مِنْ شَتْمٍ يَشْتِمُونَّا هَؤُلَاءِ إِنَّهُمْ يَقْرَءُونَ وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمْ الْكَافِرُونَ وَهَؤُلَاءِ الْآيَاتِ مَعَ مَا يَعِيبُونَّا بِهِ فِي أَعْمَالِنَا فِي قِرَاءَتِهِمْ فَادْعُهُمْ فَلْيَقْرَءُوا كَمَا نَقْرَأُ وَلْيُؤْمِنُوا كَمَا آمَنَّا فَدَعَاهُمْ فَجَمَعَهُمْ وَعَرَضَ عَلَيْهِمْ الْقَتْلَ أَوْ يَتْرُكُوا قِرَاءَةَ التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ إِلَّا مَا بَدَّلُوا مِنْهَا فَقَالُوا مَا تُرِيدُونَ إِلَى ذَلِكَ دَعُونَا فَقَالَتْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ ابْنُوا لَنَا أُسْطُوَانَةً ثُمَّ ارْفَعُونَا إِلَيْهَا ثُمَّ اعْطُونَا شَيْئًا نَرْفَعُ بِهِ طَعَامَنَا وَشَرَابَنَا فَلَا نَرِدُ عَلَيْكُمْ وَقَالَتْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ دَعُونَا نَسِيحُ فِي الْأَرْضِ وَنَهِيمُ وَنَشْرَبُ كَمَا يَشْرَبُ الْوَحْشُ فَإِنْ قَدَرْتُمْ عَلَيْنَا فِي أَرْضِكُمْ فَاقْتُلُونَا وَقَالَتْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ ابْنُوا لَنَا دُورًا فِي الْفَيَافِي وَنَحْتَفِرُ الْآبَارَ وَنَحْتَرِثُ الْبُقُولَ فَلَا نَرِدُ عَلَيْكُمْ وَلَا نَمُرُّ بِكُمْ وَلَيْسَ أَحَدٌ مِنْ الْقَبَائِلِ إِلَّا وَلَهُ حَمِيمٌ فِيهِمْ قَالَ فَفَعَلُوا ذَلِكَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَرَهْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللَّهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِهَا وَالْآخَرُونَ قَالُوا نَتَعَبَّدُ كَمَا تَعَبَّدَ فُلَانٌ وَنَسِيحُ كَمَا سَاحَ فُلَانٌ وَنَتَّخِذُ دُورًا كَمَا اتَّخَذَ فُلَانٌ وَهُمْ عَلَى شِرْكِهِمْ لَا عِلْمَ لَهُمْ بِإِيمَانِ الَّذِينَ اقْتَدَوْا بِهِ فَلَمَّا بَعَثَ اللَّهُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يَبْقَ مِنْهُمْ إِلَّا قَلِيلٌ انْحَطَّ رَجُلٌ مِنْ صَوْمَعَتِهِ وَجَاءَ سَائِحٌ مِنْ سِيَاحَتِهِ وَصَاحِبُ الدَّيْرِ مِنْ دَيْرِهِ فَآمَنُوا بِهِ وَصَدَّقُوهُ فَقَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَآمِنُوا بِرَسُولِهِ يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِنْ رَحْمَتِهِ أَجْرَيْنِ بِإِيمَانِهِمْ بِعِيسَى وَبِالتَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ وَبِإِيمَانِهِمْ بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَصْدِيقِهِمْ قَالَ يَجْعَلْ لَكُمْ نُورًا تَمْشُونَ بِهِ الْقُرْآنَ وَاتِّبَاعَهُمْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِئَلَّا يَعْلَمَ أَهْلُ الْكِتَابِ يَتَشَبَّهُونَ بِكُمْ أَنْ لَا يَقْدِرُونَ عَلَى شَيْءٍ مِنْ فَضْلِ اللَّهِ الْآيَةَ(الحدید:57:29)

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 5402

کتاب: قضا اور قاضیوں کے آداب و مسائل کا بیان ۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان: ’’جو شخص اللہ تعالیٰ کے اتارے ہوئے احکام کے مطابق فیصلہ نہ کرے، وہ کافر ہے۔ حضرت ابن عباس﷠ نے فرمایا: حضرت عیسیٰ ابن مریم ﷤ کے بعد کچھ ایسے بادشاہ ہوئے جنہوں نے تورات و انجیل کو بدل دیا اور ان میں کچھ ایمان پر قائم رہے۔ وہ (اصل) تورات پڑھتے تھے۔ ان بادشاہوں سے کہا گیا: ہم کوئی گالی اس گالی سے سخت نہیں پاتے جو یہ ہمیں دیتے ہیں کیونکہ یہ پڑھتے ہیں: ’’جو شخص اللہ تعالیٰ کے اتارے ہوئے احکام کے مطابق فیصلہ نہ کرے، وہ کافر ہے۔‘‘ اور اس قسم کی دوسری آیات، نیز وہ اپنی قرأت میں ہم پر عملی عیب بھی لگاتے ہیں۔ ان کو بلائیں اور انہیں کہیں کہ جس طرح ہم پڑھتے ہیں، وہ بھی اسی طرح پڑھیں اور وہ بھی اسی طرح ایمان لائیں جس طرح ہمارا ایمان ہے۔ بادشاہ نے ان کو بلایا اور ان کو قتل کی دھمکی دی الَّا یہ کہ وہ تورات و انجیل کی صحیح قرأت چھوڑ کر ان کی طرح تبدیل شدہ قرأت کریں۔ ان (مومن) لوگوں نے کہا: تمہیں اس سے کیا فائدہ ہوگا؟ تم ہمیں چھوڑ دو۔ ان میں سے ایک گروہ نے کہا: تم ہمارے لیے کوئی بلند عمارت بنا دو۔ پھر ہمیں اس پر چڑھا دو۔ہمیں کوئی یسی چیز دو کہ ہم اپنا کھانا پینا اوپر لے جا سکیں۔ ہم تمہارے پاس نہیں آئیں گے۔ ایک گروہ نے کہا: ہمیں چھوڑو۔ ہم زمین میں گھومتے پھریں گے اور بلا وجہ چکر لگاتے رہیں گے۔ اگر تم ہمیں اپنے علاقے میں پکڑ لو تو بے شک ہمیں قتل کر دینا۔ ایک اور گروہ نے کہا: ہمارے لیے صحراؤںؓ میں گھر بناد و۔ ہم کنویں کھود لیں گے۔ اور سبزیاں کاشت کریں گے۔ نہ ہم تمہارے پاس آئیں گے، نہ تمہارے قریب سے گزریں گے۔ ان قبائل میں سے کوئی قبیلہ بھی ایسا نہ تھا جس کا کوئی دوست اور رشتے دار ان(مومن) لوگوں میں نہ ہو اس لیے انہوں نے یہ باتیں مان لیں پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری: ’’اور رہبانیت انہوں نے خود ایجاد کرلی، ہم نے اسے ان پر فرض نہیں کیا تھا، مگر اللہ کی خوشنودی کی طلب میں انہوں نے آپ ہی یہ بد عت نکالی اور پھر اس کی پابندی کرنے کا جو حق تھا اسے ادا نہ کیا۔‘‘ اور کچھ دوسرے لوگ بھی کہنے لگے کہ ہم تو اس طرح عبادت کریں گے جیسے کہ فلاں (اونچی عمارتوں والے) کرتے ہیں اور ہم بھی اسی طرح گھومتے پھریں گے جیسے یہ گھومتے پھرتے ہیں۔ اور ہم بھی آبادیوں سے دور جھونپڑیاں بنالیں گے جس طرح انہوں نےبنائی ہیں، حالانکہ یہ لوگ مشرک تھے اور ان کو ان لوگوں کے ایمان کا کوئی علم نہ تھا جن کی قتدا کا وہ دم بھرتے تھے۔ جب اللہ تعالیٰ نے بنیٔ اکرمﷺ کو مبعوث فرمایا اور ان میں سے بھی چند لوگ ہی رہ گئے تو مناروں والے (راہب لوگ) اپنے مناروں سے اتر آئے اور گھومنے پھرنے والے بھی واپس آگئے اور جھونپڑیوں والے اپنی جھونپڑیوں سے لوٹ آئے۔ اور یہ سب لوگ آپ پر ایمان لے آئے اور آپ کی تصدیق کی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا: ’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اورا س کے رسول پر ایمان لاؤ۔ اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی رحمت سے دوہر اجر عطا فرمائے گا۔‘‘ ایک اجر حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور تورات و انجیل پر ایمان لانے کا اور دوسرا اجر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان و تصدیق کا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’ اور اللہ تعالیٰ تمہیں نور عطا فرمائے گا جس کی روشنی میں تم ( راہ حق پر چلو گے۔‘‘ اس نور سے مراد قرآن مجید اور نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مزید فرمایا: ’’تاکہ اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) جان لیں، یعنی تمہاری مشابہت اختیار کریں (تمہاری طرح ایمان لے آئیں) کہ وہ بذات خود اللہ تعالیٰ کا کچھ بھی فضل حاصل نہیں کر سکتے۔۔۔ الخ‘‘
تشریح : 1۔ محقق کتاب کے علاوہ دیگر محققین نے اس روایت کو موقوفاً صحیح کہا ہےاور یہی بات درست ہے۔ 2۔ اس حدیث میں مذکورہ آیت کی تشریح تو نہیں البتہ اس کی مثال ضرور ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کو بدلنا کفر ہے۔ ظاہر ہے کہ کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ نہ کیا جائے تو وہ حکم بد ل جاتا ہے۔ یہ بھی کفر ہے۔ باقی حدیث کا اس آیت سے کوئی تعلق نہیں۔ 3۔ ’’سخت نہیں پاتے‘‘ کیونکہ وہ ہمیں کافر کہتے ہیں۔ 4۔ ’’عملی عیب‘‘ یعنی ہماری عملی خرابیاں بیان کرتے ہیں۔ 5۔ ’’ہمیں چھوڑ دو‘‘ گویا کچھ لوگ مناروں پر چڑھ گئے اور وہاں رہ کر عبادت کرن لگ گئے۔ کچھ ملنگ بن گئے جو بے مقصد ادھر ادھر آبادیوں سے دور تعلق نہ رہا اور بد عمل لوگ یہی چاہتے تھے کہ کوئی روک ٹوک کرنے والا نہ رہے۔ 6۔ ’’رہبانیت‘‘ ترک کر دینا، یعنی لوگوں سے الگ تھلگ رہنا حتیٰ کہ معاشرتی معاملات، مثلاً: نکاح، کاروبار، لین دین اور تعلقات سے بھی منہ موڑ لینا۔ ظاہر ہے شریعت میں اس کے خلاف فطرت طریقے کی اجازت کیسے ہو سکتی ہے؟ شریعت کا مقصود تو لوگوں میں رہ کر اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم رکھنا ہے۔ 7۔ ’’کچھ دوسرے لوگ‘‘ یعنی پہلے لوگ تو واقعتاً دین حق پر تھے اور اپنے دین کو بچانے کے لیے مذکورہ طریقے اختیار کر بیٹھےتھے۔ بع میں کچھ بے دین لوگوں نے بھی ان کی نقالی شروع کردی جو راہب ہونے کے ساتھ ساتھ مشرک اور بے دین بھی تھے۔ 1۔ محقق کتاب کے علاوہ دیگر محققین نے اس روایت کو موقوفاً صحیح کہا ہےاور یہی بات درست ہے۔ 2۔ اس حدیث میں مذکورہ آیت کی تشریح تو نہیں البتہ اس کی مثال ضرور ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کو بدلنا کفر ہے۔ ظاہر ہے کہ کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ نہ کیا جائے تو وہ حکم بد ل جاتا ہے۔ یہ بھی کفر ہے۔ باقی حدیث کا اس آیت سے کوئی تعلق نہیں۔ 3۔ ’’سخت نہیں پاتے‘‘ کیونکہ وہ ہمیں کافر کہتے ہیں۔ 4۔ ’’عملی عیب‘‘ یعنی ہماری عملی خرابیاں بیان کرتے ہیں۔ 5۔ ’’ہمیں چھوڑ دو‘‘ گویا کچھ لوگ مناروں پر چڑھ گئے اور وہاں رہ کر عبادت کرن لگ گئے۔ کچھ ملنگ بن گئے جو بے مقصد ادھر ادھر آبادیوں سے دور تعلق نہ رہا اور بد عمل لوگ یہی چاہتے تھے کہ کوئی روک ٹوک کرنے والا نہ رہے۔ 6۔ ’’رہبانیت‘‘ ترک کر دینا، یعنی لوگوں سے الگ تھلگ رہنا حتیٰ کہ معاشرتی معاملات، مثلاً: نکاح، کاروبار، لین دین اور تعلقات سے بھی منہ موڑ لینا۔ ظاہر ہے شریعت میں اس کے خلاف فطرت طریقے کی اجازت کیسے ہو سکتی ہے؟ شریعت کا مقصود تو لوگوں میں رہ کر اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم رکھنا ہے۔ 7۔ ’’کچھ دوسرے لوگ‘‘ یعنی پہلے لوگ تو واقعتاً دین حق پر تھے اور اپنے دین کو بچانے کے لیے مذکورہ طریقے اختیار کر بیٹھےتھے۔ بع میں کچھ بے دین لوگوں نے بھی ان کی نقالی شروع کردی جو راہب ہونے کے ساتھ ساتھ مشرک اور بے دین بھی تھے۔