سنن النسائي - حدیث 5401

كِتَابُ آدَابِ الْقُضَاةِ الْحُكْمُ بِاتِّفَاقِ أَهْلِ الْعِلْمِ صحيح الإسناد موقوف أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الشَّيْبَانِيِّ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ شُرَيْحٍ أَنَّهُ كَتَبَ إِلَى عُمَرَ يَسْأَلُهُ فَكَتَبَ إِلَيْهِ أَنْ اقْضِ بِمَا فِي كِتَابِ اللَّهِ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي كِتَابِ اللَّهِ فَبِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي كِتَابِ اللَّهِ وَلَا فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاقْضِ بِمَا قَضَى بِهِ الصَّالِحُونَ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي كِتَابِ اللَّهِ وَلَا فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يَقْضِ بِهِ الصَّالِحُونَ فَإِنْ شِئْتَ فَتَقَدَّمْ وَإِنْ شِئْتَ فَتَأَخَّرْ وَلَا أَرَى التَّأَخُّرَ إِلَّا خَيْرًا لَكَ وَالسَّلَامُ عَلَيْكُمْ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 5401

کتاب: قضا اور قاضیوں کے آداب و مسائل کا بیان اہل علم کے اتفاق و اجماع کے مطابق فیصل کرنا حضرت شریح سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک مسئلہ پوچھنے کے لیے حضرت عمر﷜ کو خط لکھا۔ انہوں نے جواب میں لکھا کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کے مطابق فیصل کرو۔ اگر وہ مسئلہ کتاب اللہ میں نہ ہو تو سنت رسول اللہ کے مطابق فیصلہ کرو اور اگر وہ مسئلہ کتاب اللہ اور رسول اللہﷺ کی سنت میں مذکور نہ ہو تو پھر سلف صالحین کے فیصلے کے مطابق فیصلہ کرو اور اگر وہ مسئلہ نہ کتاب اللہ میں ہو، نہ رسول اللہﷺ کی سنت میں ہو اور نہ اس کے بارے میں سلف صالحین سے کوئی فیصلہ منقول ہو تو پھر تیری مرضی ہے، چاہے تو آگے بڑھ (کر جواب دے) اور چاہے تو پیچھے ہٹ جا (خاموشی اختیار کر) ۔ اور میرے خیال میں خاموشی ہی تیرے لیے بہتر ہے۔ والسلام علیکم
تشریح : ’’خاموشی بہتر ہے‘‘ کیونکہ اجتہاد میں غلطی کا امکان بہر صورت موجود رہتا ہے۔ ان روایات سے معلوم ہوا کہ قرآن و حدیث اور اجماع کے بعداجتہاد یا قیاس کا درجہ ہے، یعنی اگر کوئی مسئلہ قرآن حدیث میں مذکور نہ ہو اور اس بارے میں اجماع بھی موجود نہ ہو تو اسے اجتہاد و قیاس سے حل کیا جائے گا بشر طیکہ اجتہاد کرنے والا صاحب علم ہو، اجتہاد کے قابل ہولیکن اگر کوئی مسئلہ قرآن و حدیث میں موجود ہو یا اس کےبارے میں صحابہ یا تابعین کا اجماع پایا جاتا ہو تو اس کے بارے میں اجتہاد جائز نہیں کیونکہ اجتہاد سے مراد منصوص مسائل میں تبدیلی کرنا نہیں بلکہ غیر منصوص مسائل کا حل معلوم کرنا ہے۔ آج کل بعض علم سے بے بہرہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اجتہاد مطلب قرآن و سنت کے احکام معلوم کرنا ہے آج کل بعض علم سے بے بجہرہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اجتجہاد کا مطلب قرآن و سنت کے احکام میں تبدیلی کرنا ہے اور ان کے بقول قرآن و سنت کے مسائل کو موجودہ حالات کے مطابق کرنا ہے، حالانکہ حق یہ ہے حالات کو قرآن و سنت کے مطابق بدلنا چاہیے نہ کہ قرآن و سنت میں حالات کے مطابق تبدیلی کرنی چاہیے۔ ’’خاموشی بہتر ہے‘‘ کیونکہ اجتہاد میں غلطی کا امکان بہر صورت موجود رہتا ہے۔ ان روایات سے معلوم ہوا کہ قرآن و حدیث اور اجماع کے بعداجتہاد یا قیاس کا درجہ ہے، یعنی اگر کوئی مسئلہ قرآن حدیث میں مذکور نہ ہو اور اس بارے میں اجماع بھی موجود نہ ہو تو اسے اجتہاد و قیاس سے حل کیا جائے گا بشر طیکہ اجتہاد کرنے والا صاحب علم ہو، اجتہاد کے قابل ہولیکن اگر کوئی مسئلہ قرآن و حدیث میں موجود ہو یا اس کےبارے میں صحابہ یا تابعین کا اجماع پایا جاتا ہو تو اس کے بارے میں اجتہاد جائز نہیں کیونکہ اجتہاد سے مراد منصوص مسائل میں تبدیلی کرنا نہیں بلکہ غیر منصوص مسائل کا حل معلوم کرنا ہے۔ آج کل بعض علم سے بے بہرہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اجتہاد مطلب قرآن و سنت کے احکام معلوم کرنا ہے آج کل بعض علم سے بے بجہرہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اجتجہاد کا مطلب قرآن و سنت کے احکام میں تبدیلی کرنا ہے اور ان کے بقول قرآن و سنت کے مسائل کو موجودہ حالات کے مطابق کرنا ہے، حالانکہ حق یہ ہے حالات کو قرآن و سنت کے مطابق بدلنا چاہیے نہ کہ قرآن و سنت میں حالات کے مطابق تبدیلی کرنی چاہیے۔