سنن النسائي - حدیث 5399

كِتَابُ آدَابِ الْقُضَاةِ الْحُكْمُ بِاتِّفَاقِ أَهْلِ الْعِلْمِ صحيح الإسناد موقوف أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ عُمَارَةَ هُوَ ابْنُ عُمَيْرٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ أَكْثَرُوا عَلَى عَبْدِ اللَّهِ ذَاتَ يَوْمٍ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ إِنَّهُ قَدْ أَتَى عَلَيْنَا زَمَانٌ وَلَسْنَا نَقْضِي وَلَسْنَا هُنَالِكَ ثُمَّ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدَّرَ عَلَيْنَا أَنْ بَلَغْنَا مَا تَرَوْنَ فَمَنْ عَرَضَ لَهُ مِنْكُمْ قَضَاءٌ بَعْدَ الْيَوْمِ فَلْيَقْضِ بِمَا فِي كِتَابِ اللَّهِ فَإِنْ جَاءَ أَمْرٌ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ فَلْيَقْضِ بِمَا قَضَى بِهِ نَبِيُّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنْ جَاءَ أَمْرٌ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ وَلَا قَضَى بِهِ نَبِيُّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلْيَقْضِ بِمَا قَضَى بِهِ الصَّالِحُونَ فَإِنْ جَاءَ أَمْرٌ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ وَلَا قَضَى بِهِ نَبِيُّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا قَضَى بِهِ الصَّالِحُونَ فَلْيَجْتَهِدْ رَأْيَهُ وَلَا يَقُولُ إِنِّي أَخَافُ وَإِنِّي أَخَافُ فَإِنَّ الْحَلَالَ بَيِّنٌ وَالْحَرَامَ بَيِّنٌ وَبَيْنَ ذَلِكَ أُمُورٌ مُشْتَبِهَاتٌ فَدَعْ مَا يَرِيبُكَ إِلَى مَا لَا يَرِيبُكَ قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ هَذَا الْحَدِيثُ جَيِّدٌ جَيِّدٌ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 5399

کتاب: قضا اور قاضیوں کے آداب و مسائل کا بیان اہل علم کے اتفاق و اجماع کے مطابق فیصل کرنا حضرت عبد الرحمٰن بن یزید نے فرمایا: ایک دن لوگوں نے حضرت عبد اللہ بن مسعود پر کسی مسئلے کے فیصلے کے بارے میں بہت زور دیا تو حضرت عبد اللہ بن مسعود نے فرمایا: ایک وقت تھا کہ ہم فیصلے نہیں کیا کرتے تھے اور نہ ہمارا یہ مقام تھا، پھر اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے مقدر فرمایا کہ ہم اس مرتبے کو پہنچ گئے ہیں جو تم دیکھ رہے ہو۔ آج کے بعد جس کے پاس کوئی فیصلہ آئے تو وہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کے حکم کے مطابق فیصلہ کرے۔ اگر کوئی ایسا مسئلہ درپیش ہو جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی کتاب میں کوئی حکم ذکر نہیں تو پھر وہ نبیٔ اکرمﷺ کے فیصلے کے مطابق فیصلہ کرے۔ اور اگر کوئی ایسا مسئلہ سامنے آئے جس کے بارے میں نہ تو اللہ تعالیٰ کی کتاب میں کوئی حکم ہے اور نہ رسول اللہﷺ کو کائی فیصلہ ہے تو پھر وہ نیک لوگوں کے فیصلے مطابق فیصلہ کرے… اور اگر کوئی ایسا معاملہ سامنے آئے جس کے بارے میں نہ تو اللہ تعالیٰ کی کتاب میں کوئی حکم ہے اور نہ رسول اللہﷺ نے کوئی فیصلہ فرمایا ہو اور نہ سلف صالحین نے کوئی فیصلہ کیا ہو تو وہ اپنی رائے کے ساتھ حق بات تک پہنچنے کی کوشش کرے۔ یہ نہ کہے کہ (مجھے فتویٰ دیتے ہوئے) ڈر لگتا ہے۔ اور میں خطرہ محسوس کرتا ہوں، اس لیے کہ حلال کا حکم واضح ہے اور حرام کا بھی۔ درمیان میں کچھ چیزیں مشتبہ ہیں تو (ان کے بارے میں اصول یہ ہے کہ) شک و شبہ والی چیز کو چھوڑ دے اور غیر مشتبہ چیز کو اختیار کر۔ ابوعبد الرحمٰن (امام نسائی﷫) نے کہا: یہ حدیث جید (قابل حجت) ہے۔
تشریح : 1۔ اس باب سے امام صاحب﷫ کا مقصود اجماع کی ح حجیت ثابت کرنا ہے کیونکہ قرآن مجید کی آیات اور دیگر احادیث سے اس کی حجیت ثابت ہوتی ہے، جیسے ﴿ وَ مَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُ الْهُدٰی وَ یَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰی وَ نُصْلِهٖ جَهَنَّمَ ؕ وَ سَآءَتْ مَصِیْرًا۠﴾(النساء، 115:4) اور ﴿ وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا ﴾ (البقرۃ، 143:2) اسی طرح [إنَّ اللہ قدْ أَجَارَ أَمَّتِیْ مِنْ أَنْ تَجْتَمِعَ علیٰ ضَلالَۃٍ] (سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ، حیدث:1331) اس قسم کی آیات و احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ جب اہل علم ایک بات پر اتفاق کر لیں تو کسی شخص کو اس کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے، خواہ اس بات پر قرآن و حدیث سے کوئی صریح دلیل نہ ملتی ہو۔ خلفائے راشدین کا طرز عمل یہی تھا کہ جب کسی مسئلے کی بابت صریح حکم نہ ہوتا تو اہل علم سے مشورہ فرماتے، پھر جس پر اتفاق ہو جاتا اسے اختیار کر لیتےلہٰذا اجماع کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے کیونکہ جو اجتہاد شرعی تقاضوں کے عین مطابق ہو اس سے رو گردانی اور اعراض کرنا نہ صرف گمراہی و بے دینی بلکہ شیطان کا آلۂ کار بننا ہے۔ یہ ضرورہی ہے کہ اجتہاد، نصوص کتاب وسنت کے مطابق ہونا چاہیے مخالف نہیں۔ 2۔ ’’ایک وقت تھا‘‘ اس سے رسول اللہﷺ اور شیخین دور مراد ہے۔ 3۔ ’’نیک لوگوں‘‘ مراد اہل علم اور متقی حضرات ہیں۔ 1۔ اس باب سے امام صاحب﷫ کا مقصود اجماع کی ح حجیت ثابت کرنا ہے کیونکہ قرآن مجید کی آیات اور دیگر احادیث سے اس کی حجیت ثابت ہوتی ہے، جیسے ﴿ وَ مَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُ الْهُدٰی وَ یَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰی وَ نُصْلِهٖ جَهَنَّمَ ؕ وَ سَآءَتْ مَصِیْرًا۠﴾(النساء، 115:4) اور ﴿ وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا ﴾ (البقرۃ، 143:2) اسی طرح [إنَّ اللہ قدْ أَجَارَ أَمَّتِیْ مِنْ أَنْ تَجْتَمِعَ علیٰ ضَلالَۃٍ] (سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ، حیدث:1331) اس قسم کی آیات و احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ جب اہل علم ایک بات پر اتفاق کر لیں تو کسی شخص کو اس کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے، خواہ اس بات پر قرآن و حدیث سے کوئی صریح دلیل نہ ملتی ہو۔ خلفائے راشدین کا طرز عمل یہی تھا کہ جب کسی مسئلے کی بابت صریح حکم نہ ہوتا تو اہل علم سے مشورہ فرماتے، پھر جس پر اتفاق ہو جاتا اسے اختیار کر لیتےلہٰذا اجماع کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے کیونکہ جو اجتہاد شرعی تقاضوں کے عین مطابق ہو اس سے رو گردانی اور اعراض کرنا نہ صرف گمراہی و بے دینی بلکہ شیطان کا آلۂ کار بننا ہے۔ یہ ضرورہی ہے کہ اجتہاد، نصوص کتاب وسنت کے مطابق ہونا چاہیے مخالف نہیں۔ 2۔ ’’ایک وقت تھا‘‘ اس سے رسول اللہﷺ اور شیخین دور مراد ہے۔ 3۔ ’’نیک لوگوں‘‘ مراد اہل علم اور متقی حضرات ہیں۔