كِتَابُ آدَابِ الْقُضَاةِ الْحُكْمُ بِالتَّشْبِيهِ وَالتَّمْثِيلِ وَذِكْرُ الِاخْتِلَافِ عَلَى الْوَلِيدِ بْنِ مُسْلِمٍ فِي حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ هَاشِمٍ عَنْ الْوَلِيدِ عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ كَانَ رَدِيفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَدَاةَ النَّحْرِ فَأَتَتْهُ امْرَأَةٌ مِنْ خَثْعَمَ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ فَرِيضَةَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فِي الْحَجِّ عَلَى عِبَادِهِ أَدْرَكَتْ أَبِي شَيْخًا كَبِيرًا لَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يَرْكَبَ إِلَّا مُعْتَرِضًا أَفَأَحُجُّ عَنْهُ قَالَ نَعَمْ حُجِّي عَنْهُ فَإِنَّهُ لَوْ كَانَ عَلَيْهِ دَيْنٌ قَضَيْتِيهِ
کتاب: قضا اور قاضیوں کے آداب و مسائل کا بیان
مشابہت اور قیاس کے ساتھ فیصلہ کرنا اور ابن عباس کی حدیث میں (راویوں کا) ولید بن مسلم پر اختلاف
حضرت فضل بن عباس سے روایت ہےکہ وہ نحر کے دن رسول اللہﷺ کے پیچھے سواری پر بیٹھے تھے کہ خثعم قبیلے کی ایک عورت آپ کے پاس حاضر ہوئی اور کہا: اے اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ کا اس کے بندوں پر فریضۂ حج، میرے والد پر اس وقت (فرض) ہوا جبکہ وہ بہت بوڑھے ہیں۔ (سواری پر) سوار نہیں ہوسکتے الا یہ کہ انہیں لٹا دیا جائے تو کیا میں ان کی طرف سے حج کرلوں؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں تو اس کی طرف سے حج کر، کیونکہ اگر اس کے ذمے قرض ہوتا تو تو اسے ادا کرتی۔‘‘
تشریح :
1۔ اس حدیث مبارکہ سے یہ اہم مسئلہ ثابت ہوتا ہے کہ کسی دوسرے شخص کی طرف سے حج کرنا شرعاً جائز ہے بشرطیکہ حج بدل کرنے والا شخص اس سے پہلے اپنا حج کر چکا ہو جیسا کہ شبرمہ والی حدیث میں ہے کہ رسو اللہﷺ نے اسے فرمایا تھا کہ پہلے اپنا حج کر،پھر شبرمہ کی طر سے حج کرنا۔
2۔ یادرہے جس شخص پر حج فرض ہو چکا ہو اور اسے کوئی شرعذر آڑے آرہا ہو جس کی وجہ سے وہ خود حج نہ کرسکتا ہو، مثلاً: وہ دائمی مریض ہو یا انتہائی بوڑھا ہو یا سواری پر بیٹھنے کے قابل نہ ہو، وغیرہ تو ایسے زندہ شخص کی طرف سے حج کرنا درست ہے۔
3۔ یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ اگر سواری کا جانور برداشت کر سکتا ہو تو اس پر بیک وقت ایک سے زیادہ آدمی سوار ہو سکتے ہیں، نیز یہ رسول اللہﷺ کی عظیم تواضع اور حضرت فضل کے عظیم المرتبت ہونے کی صریح دلیل بھی ہے کہ آپ نے اپنے سے کہیں کم مرتبہ شخص کو نہ صرف اپنے ساتھ بلکہ اپنے پیچے ایک ہی سواری پر سوارکر لیا۔
4۔ اس حدیث مبارکہ سے یہ اہم مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ غیر محرم شخص کے لیے عورت کی آواز سننا شرعاً جائز ہے۔ جو لوگ عورت کی آواز کو بھی عورت یعنی چھپانے کے قابل قراردیتے ہیں، اس حدیث مبارکہ سے ان کے مؤقف کا رد ہوتا ہے۔
5۔ عالم اور استاد اگر مناسب سمجھے تو سائل اور شاگرد کو مثال بیان کرکے مسئلہ سمجھا سکتا ہے جیسا کہ رسول اللہﷺ نے کیا تھا۔
6۔ یہ حدیث مبارکہ والدین کے ساتھ نیکی اور حسن سلوک کرنے پر دلالت کرتی ہے۔ ان کا خیال رکھنا، ان کے ذمے قرض ہو تو ادا کرنا، ان کے نان و نفقہ اور اخراجات وغیرہ کا دھیان کرنا، نیز ان کی دیگر دینی اور دنیاوی ضرورتیں پوری کرنا اولاد کی ذمہ داری ہے۔
7۔ یہ حجۃ الوداع کی بات ہے۔ یوم نحر سے مراد 10 ذی الحجہ ہے جس دن حاجی منیٰ میں واپس آتے ہیں اور رمی کرتے ہیں۔
8۔ ’’اگر اس کے ذمے قرض ہوتا‘‘ یہ ایک مثال ہے جو آپؐ نے اس کو مسئلہ سمجھانے کے لیے بیان فرمائی ورنہ یہ ضروری نہیں کہ آپ نے حج کا سمئلہ قرض کے مسئلہ سے معلوم فرمایا ہو بلکہ یہ دونوں احکام شرع میں معلوم تھے۔ اسی لیے امام بخاری نے اس حدیث کا عنوان یوں باندھا ہے: ’’جو شخص ایک معلوم حکم سمجھانے کے لیے ایک زیادہ واضح حکم بطور مثال بیان کرے۔۔۔۔الخ‘‘ ورنہ بہت سے مسئل میں یہ قیاس نہیں چلتا، مثلاً: کسی شخص کے ذمے نماز یا روزہ ہو اوروہ خد ادا کرنے کے قابل نہ ہو تو کوئی دوسرا شخص اس کی طرف سے ادا نہیں کر سکتا اور یہ اتفاقی مسئلہ ہے۔
9۔ یاد رکھنا چاہیے کہ قیاس وہاں چلتا ہے جہاں شریعت کا صریح حکم موجود نہ ہو، اس لیے قرآن و حدیث کے حکم کے مقابلے میں قیاس جائز نہیں۔
1۔ اس حدیث مبارکہ سے یہ اہم مسئلہ ثابت ہوتا ہے کہ کسی دوسرے شخص کی طرف سے حج کرنا شرعاً جائز ہے بشرطیکہ حج بدل کرنے والا شخص اس سے پہلے اپنا حج کر چکا ہو جیسا کہ شبرمہ والی حدیث میں ہے کہ رسو اللہﷺ نے اسے فرمایا تھا کہ پہلے اپنا حج کر،پھر شبرمہ کی طر سے حج کرنا۔
2۔ یادرہے جس شخص پر حج فرض ہو چکا ہو اور اسے کوئی شرعذر آڑے آرہا ہو جس کی وجہ سے وہ خود حج نہ کرسکتا ہو، مثلاً: وہ دائمی مریض ہو یا انتہائی بوڑھا ہو یا سواری پر بیٹھنے کے قابل نہ ہو، وغیرہ تو ایسے زندہ شخص کی طرف سے حج کرنا درست ہے۔
3۔ یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ اگر سواری کا جانور برداشت کر سکتا ہو تو اس پر بیک وقت ایک سے زیادہ آدمی سوار ہو سکتے ہیں، نیز یہ رسول اللہﷺ کی عظیم تواضع اور حضرت فضل کے عظیم المرتبت ہونے کی صریح دلیل بھی ہے کہ آپ نے اپنے سے کہیں کم مرتبہ شخص کو نہ صرف اپنے ساتھ بلکہ اپنے پیچے ایک ہی سواری پر سوارکر لیا۔
4۔ اس حدیث مبارکہ سے یہ اہم مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ غیر محرم شخص کے لیے عورت کی آواز سننا شرعاً جائز ہے۔ جو لوگ عورت کی آواز کو بھی عورت یعنی چھپانے کے قابل قراردیتے ہیں، اس حدیث مبارکہ سے ان کے مؤقف کا رد ہوتا ہے۔
5۔ عالم اور استاد اگر مناسب سمجھے تو سائل اور شاگرد کو مثال بیان کرکے مسئلہ سمجھا سکتا ہے جیسا کہ رسول اللہﷺ نے کیا تھا۔
6۔ یہ حدیث مبارکہ والدین کے ساتھ نیکی اور حسن سلوک کرنے پر دلالت کرتی ہے۔ ان کا خیال رکھنا، ان کے ذمے قرض ہو تو ادا کرنا، ان کے نان و نفقہ اور اخراجات وغیرہ کا دھیان کرنا، نیز ان کی دیگر دینی اور دنیاوی ضرورتیں پوری کرنا اولاد کی ذمہ داری ہے۔
7۔ یہ حجۃ الوداع کی بات ہے۔ یوم نحر سے مراد 10 ذی الحجہ ہے جس دن حاجی منیٰ میں واپس آتے ہیں اور رمی کرتے ہیں۔
8۔ ’’اگر اس کے ذمے قرض ہوتا‘‘ یہ ایک مثال ہے جو آپؐ نے اس کو مسئلہ سمجھانے کے لیے بیان فرمائی ورنہ یہ ضروری نہیں کہ آپ نے حج کا سمئلہ قرض کے مسئلہ سے معلوم فرمایا ہو بلکہ یہ دونوں احکام شرع میں معلوم تھے۔ اسی لیے امام بخاری نے اس حدیث کا عنوان یوں باندھا ہے: ’’جو شخص ایک معلوم حکم سمجھانے کے لیے ایک زیادہ واضح حکم بطور مثال بیان کرے۔۔۔۔الخ‘‘ ورنہ بہت سے مسئل میں یہ قیاس نہیں چلتا، مثلاً: کسی شخص کے ذمے نماز یا روزہ ہو اوروہ خد ادا کرنے کے قابل نہ ہو تو کوئی دوسرا شخص اس کی طرف سے ادا نہیں کر سکتا اور یہ اتفاقی مسئلہ ہے۔
9۔ یاد رکھنا چاہیے کہ قیاس وہاں چلتا ہے جہاں شریعت کا صریح حکم موجود نہ ہو، اس لیے قرآن و حدیث کے حکم کے مقابلے میں قیاس جائز نہیں۔