سنن النسائي - حدیث 5388

كِتَابُ آدَابِ الْقُضَاةِ اسْتِعْمَالُ الشُّعَرَاءِ صحيح أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ قَالَ أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ قَدِمَ رَكْبٌ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَبُو بَكْرٍ أَمِّرْ الْقَعْقَاعَ بْنَ مَعْبَدٍ وَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بَلْ أَمِّرْ الْأَقْرَعَ بْنَ حَابِسٍ فَتَمَارَيَا حَتَّى ارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُهُمَا فَنَزَلَتْ فِي ذَلِكَ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ اللَّهِ وَرَسُولِهِ حَتَّى انْقَضَتْ الْآيَةُ وَلَوْ أَنَّهُمْ صَبَرُوا حَتَّى تَخْرُجَ إِلَيْهِمْ لَكَانَ خَيْرًا لَهُمْ(الحجرات:49/1۔5)

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 5388

کتاب: قضا اور قاضیوں کے آداب و مسائل کا بیان شاعروں کو عامل (حاکم) مقرر کرنا حضرت عبد اللہ بن زبیر﷠ نے بیان فرمایا کہ بنو تمیم کا ایک قافلہ نبیٔ اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ حضرت ابوبکر﷜ نے کہا: قعقاع بن معبد کو ان کا امیر مقرر فرما دیجیے۔ حضرت عمر﷜ نے کہا: اس کی بجائے اقرع بن حابس کو میر مقرر فرمائیں۔ اس بات پر دونوں آپس میں بحث و تکرار کرنے لگے حتیٰ کہ ان کی آوازیں بلند ہو گئیں تو اس کی بابت یہ آیت اتری: ’’اے اللہ ایمان والو! اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (ﷺ) سے آگے نہ بڑھو۔۔۔ اگر یہ لوگ صبر کرتے (اور آپ کو باہر سے آوازیں نہ دیتے) حتیٰ کہ آپ خود ان کے پاس تشریف لاتے تو ان کے لیے بہتر ہوتا۔‘‘
تشریح : 1۔ اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ کبھی کبھار بڑے بڑے عطماء اور جلیل القدر لوگوں سے بھی غلطی ہو جاتی ہے جیسا کہ امت محمدیہ کے افضل ترین انسان صدیق و فاروق﷠ سے خطا صادر ہوئی، تاہم انہوں نے ایسی سچی توبکہ کی کہ مذکورہ وقعے کے بعد کبھی رسول اللہﷺ کے سامنے بلند آواز سے بات نہیں کی۔ 2۔ اس حدیث سے رسول اللہﷺ کی عظیم قدر و منزلت بھی واضح ہوتی ہے۔ کہ آپ کے سامنے کسی کو اونچی آواز سے بات کرنے کا حق بھی نہیں چہ جائیکہ آپ کے مقابلے میں کسی امتی کو درجۂ امامت پر فائز کر دیا جائے اور اس کی ہر بات کوآنکھیں بند کر کے تسلیم کر لیا جائے اور ساری زندگی نہ صرف اس کی اندھا دھند تقلید میں گزار دی جائے بلکہ بلا دلیل اس کی بات تسلیم نہ کرنے والوں کو طعن و تشنع کا نشانہ بنایا جائے۔ 3۔ اس حدیث میں مسئلہ الباب کا صراحتاً ذکر نہیں اگر کہیں اس کا ثبوت ملتا ہے کہ اقرع بن حابس بھی شاعری کرتے تھے تو پھر بات واضح ہے۔ واللہ أعلم۔ 4۔ قرآن مجید اور احادیث میں عموما! شعراء کی مذمت کی گئی ہے کیونکہ شعراء مبالغہ آرائی بلکہ جھوٹ، خوشامد اور تعلی کے عادی ہوتے ہیں اور شریعت ان اوصاف کو برا سمجھتی ہے۔ ویسے بھی حاکم کے لیے سنجیدہ طبع ہونا ضروری ہے اور یہ چیز پیشہ ور شعراء میں مفقود ہوتی ہے، اس لیے ظاہری طورپر سمجھ میں یہی آتا ہے کہ شعراء کو حاکم نہیں نبانا چاہیے مگر چونکہ ضروری نہیں کہ ہر شاعر ایسا ہی ہو خصوصاً جو پیشہ ور شاعر نہ ہو، لہٰذا اگر امارت کا اہل ہو تو اسے امیر بنایا جا سکتا ہے۔ 5۔ ’’آگے نہ بڑھو‘‘ یعنی اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے سے قبل جلد بازی نہ کرو بلکہ ان کے فیسلے کا انتظار کرو جب تک رسول اللہﷺ خود مشورہ طلب نہ فرمائیں، تم خود بخود مشورہ نہ دو۔ امیر منتخب کرنا رسول اللہﷺ کا کام ہے نہ کہ تمہارا۔ 6۔ ’’صبر کرتے‘‘ اشارہ بنو تمیم کے وفد کی طرف ہے کہ جب وہ آئے تھے تو انہوں نے باہر کھڑے ہو کر زور زور سے آوازیں دینی شروع کردی تھیں: يَا مُحمّد! اُخْرُجْ ظاہر ہے یہ معقول انداز نہیں تھا۔ نبیٔ اکرمﷺ جیسی عطیم شخصیت کو اس طرح نہیں بلایا جا سکتا بلکہ ان کا انتظار کیا جاتا ہے۔ 1۔ اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ کبھی کبھار بڑے بڑے عطماء اور جلیل القدر لوگوں سے بھی غلطی ہو جاتی ہے جیسا کہ امت محمدیہ کے افضل ترین انسان صدیق و فاروق﷠ سے خطا صادر ہوئی، تاہم انہوں نے ایسی سچی توبکہ کی کہ مذکورہ وقعے کے بعد کبھی رسول اللہﷺ کے سامنے بلند آواز سے بات نہیں کی۔ 2۔ اس حدیث سے رسول اللہﷺ کی عظیم قدر و منزلت بھی واضح ہوتی ہے۔ کہ آپ کے سامنے کسی کو اونچی آواز سے بات کرنے کا حق بھی نہیں چہ جائیکہ آپ کے مقابلے میں کسی امتی کو درجۂ امامت پر فائز کر دیا جائے اور اس کی ہر بات کوآنکھیں بند کر کے تسلیم کر لیا جائے اور ساری زندگی نہ صرف اس کی اندھا دھند تقلید میں گزار دی جائے بلکہ بلا دلیل اس کی بات تسلیم نہ کرنے والوں کو طعن و تشنع کا نشانہ بنایا جائے۔ 3۔ اس حدیث میں مسئلہ الباب کا صراحتاً ذکر نہیں اگر کہیں اس کا ثبوت ملتا ہے کہ اقرع بن حابس بھی شاعری کرتے تھے تو پھر بات واضح ہے۔ واللہ أعلم۔ 4۔ قرآن مجید اور احادیث میں عموما! شعراء کی مذمت کی گئی ہے کیونکہ شعراء مبالغہ آرائی بلکہ جھوٹ، خوشامد اور تعلی کے عادی ہوتے ہیں اور شریعت ان اوصاف کو برا سمجھتی ہے۔ ویسے بھی حاکم کے لیے سنجیدہ طبع ہونا ضروری ہے اور یہ چیز پیشہ ور شعراء میں مفقود ہوتی ہے، اس لیے ظاہری طورپر سمجھ میں یہی آتا ہے کہ شعراء کو حاکم نہیں نبانا چاہیے مگر چونکہ ضروری نہیں کہ ہر شاعر ایسا ہی ہو خصوصاً جو پیشہ ور شاعر نہ ہو، لہٰذا اگر امارت کا اہل ہو تو اسے امیر بنایا جا سکتا ہے۔ 5۔ ’’آگے نہ بڑھو‘‘ یعنی اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے سے قبل جلد بازی نہ کرو بلکہ ان کے فیسلے کا انتظار کرو جب تک رسول اللہﷺ خود مشورہ طلب نہ فرمائیں، تم خود بخود مشورہ نہ دو۔ امیر منتخب کرنا رسول اللہﷺ کا کام ہے نہ کہ تمہارا۔ 6۔ ’’صبر کرتے‘‘ اشارہ بنو تمیم کے وفد کی طرف ہے کہ جب وہ آئے تھے تو انہوں نے باہر کھڑے ہو کر زور زور سے آوازیں دینی شروع کردی تھیں: يَا مُحمّد! اُخْرُجْ ظاہر ہے یہ معقول انداز نہیں تھا۔ نبیٔ اکرمﷺ جیسی عطیم شخصیت کو اس طرح نہیں بلایا جا سکتا بلکہ ان کا انتظار کیا جاتا ہے۔