سنن النسائي - حدیث 5373

كِتَاب الزِّينَةِ مَا جَاءَ فِي الْأَنْطَاعِ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْمَرٍ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ أَبِي الْوَزِيرِ أَبُو مُطَرِّفٍ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اضْطَجَعَ عَلَى نَطْعٍ فَعَرِقَ فَقَامَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ إِلَى عَرَقِهِ فَنَشَّفَتْهُ فَجَعَلَتْهُ فِي قَارُورَةٍ فَرَآهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا هَذَا الَّذِي تَصْنَعِينَ يَا أُمَّ سُلَيْمٍ قَالَتْ أَجْعَلُ عَرَقَكَ فِي طِيبِي فَضَحِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 5373

کتاب: زینت سے متعلق احکام و مسائل چمڑے کے بچھونے کا بیان حضرت انس بن مالک﷜ سے روایت ہےکہ نبیٔ اکرمﷺ (ایک دفوہ ہمارے گھر میں) چمڑے کے بچھونے پر استراحت فر ہوئے۔ آپ کو پسینہ آگیا۔ (میری والدہ) حضر ام سلیم﷜ اٹھیں اور آپ کے بابرکت پسینے کو اکٹھا کرکے ایک شیشی میں ڈال لیا۔ نبیٔ اکرمﷺ نے ان کو (ایسے کرتے ہوئے) دیکھا تو فرمایا: ’’ام سلیم! کیا کرتی ہے؟‘‘ انہوں نے کہا: میں آپ کا پسینہ اپنی خوشبو میں ڈال لوں گی۔ آپ مسکرانے لگے۔
تشریح : 1۔یہ حدیث مبارکہ میں اس مسئلے کی دلیل ہے کہ رسول اللہﷺ کا پسینہ مبارک متبرک تھا۔ صحابۂ کرام﷢ نے اس سےتبرک حاصل کیا ہے۔ نبیٔ اکرمﷺ کو اس بات کا علم تھا اور آپ نے انہیں ایسا کرنے سے منع نہیں فرمایا۔ مزید برآں یہ کہ صحابۂ کرام﷢ آپ کے مبارک بالوں اور ناخنوں کو بھی بابرکت سمجھتے تھے صحابۂ کرام﷢ کو آپﷺ سے بے انتہا محبت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آپ کے پسینے مبارک کو بھی محبوب متاع سمجھتے تھے اور آپ کے آثار کریمہ سے تبرک حاصل کرتے تھے۔ 2۔ یہ حدیث مبارکہ اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ انسان کا چمڑا، اس کا پسینہ اور اسی طرح انسانی بال بھی پاک اور طاہر ہیں، نیز اس سے قیلولے کی مشروعیت بھی ثابت ہوئی۔ 3۔ ’’چمڑے کا بچھونا‘‘ کپڑے کی چادر سے بہر صورت بہتر ہوتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اچھی چیز کا استعمال معیوب نہیں۔ 4۔ ’’استراحت فرما ہوئے‘‘ پیچھے گزرچکا ہے کہ حضرت ام سلیم اور حضرت ام حرام سے جہ وکہ بہنیں تھیں، آپ کا کوئی ایسا رشتہ تھا جس کی بنا پر وہ آپ کی محرم تھیں، اس لیے آپ کبھی کبھی ان کے گھروں میں جاتے تھے اور کبھی استرحت بھی فرماتے تھے۔ 5۔ ’’اکٹھا کرکے‘‘ عربی میں لفظ نشَّفَتْهُ استعمال کیا گی اہے جس کے معنی خشک کرنے کے ہیں۔ گویا انہوں نے کسی کپڑے میں پسینہ جذب کر لیا اور وہ کپڑا اپنی خوشبو میں نچوڑ لیا یا خالی شیشی میں ۔ واللہ أعلم۔ 6۔ ’’مسکرانے لگے‘‘ ان کے حسن عقیدت پر اور حسن ادب کو دیکھ کر۔ یہ بحث پیچھے گزر چکی ہے کہ ایسا تبرک صرف رسول اللہﷺ سے خاص تھا۔ 1۔یہ حدیث مبارکہ میں اس مسئلے کی دلیل ہے کہ رسول اللہﷺ کا پسینہ مبارک متبرک تھا۔ صحابۂ کرام﷢ نے اس سےتبرک حاصل کیا ہے۔ نبیٔ اکرمﷺ کو اس بات کا علم تھا اور آپ نے انہیں ایسا کرنے سے منع نہیں فرمایا۔ مزید برآں یہ کہ صحابۂ کرام﷢ آپ کے مبارک بالوں اور ناخنوں کو بھی بابرکت سمجھتے تھے صحابۂ کرام﷢ کو آپﷺ سے بے انتہا محبت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آپ کے پسینے مبارک کو بھی محبوب متاع سمجھتے تھے اور آپ کے آثار کریمہ سے تبرک حاصل کرتے تھے۔ 2۔ یہ حدیث مبارکہ اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ انسان کا چمڑا، اس کا پسینہ اور اسی طرح انسانی بال بھی پاک اور طاہر ہیں، نیز اس سے قیلولے کی مشروعیت بھی ثابت ہوئی۔ 3۔ ’’چمڑے کا بچھونا‘‘ کپڑے کی چادر سے بہر صورت بہتر ہوتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اچھی چیز کا استعمال معیوب نہیں۔ 4۔ ’’استراحت فرما ہوئے‘‘ پیچھے گزرچکا ہے کہ حضرت ام سلیم اور حضرت ام حرام سے جہ وکہ بہنیں تھیں، آپ کا کوئی ایسا رشتہ تھا جس کی بنا پر وہ آپ کی محرم تھیں، اس لیے آپ کبھی کبھی ان کے گھروں میں جاتے تھے اور کبھی استرحت بھی فرماتے تھے۔ 5۔ ’’اکٹھا کرکے‘‘ عربی میں لفظ نشَّفَتْهُ استعمال کیا گی اہے جس کے معنی خشک کرنے کے ہیں۔ گویا انہوں نے کسی کپڑے میں پسینہ جذب کر لیا اور وہ کپڑا اپنی خوشبو میں نچوڑ لیا یا خالی شیشی میں ۔ واللہ أعلم۔ 6۔ ’’مسکرانے لگے‘‘ ان کے حسن عقیدت پر اور حسن ادب کو دیکھ کر۔ یہ بحث پیچھے گزر چکی ہے کہ ایسا تبرک صرف رسول اللہﷺ سے خاص تھا۔