سنن النسائي - حدیث 5351

كِتَاب الزِّينَةِ التَّصَاوِيرُ صحيح أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ شُعَيْبٍ قَالَ حَدَّثَنَا مَعْنٌ قَالَ حَدَّثَنَا مَالِكٌ عَنْ أَبِي النَّضْرِ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّهُ دَخَلَ عَلَى أَبِي طَلْحَةَ الْأَنْصَارِيِّ يَعُودُهُ فَوَجَدَ عِنْدَهُ سَهْلَ بْنَ حُنَيْفٍ فَأَمَرَ أَبُو طَلْحَةَ إِنْسَانًا يَنْزَعُ نَمَطًا تَحْتَهُ فَقَالَ لَهُ سَهْلٌ لِمَ تَنْزِعُ قَالَ لِأَنَّ فِيهِ تَصَاوِيرُ وَقَدْ قَالَ فِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا قَدْ عَلِمْتَ قَالَ أَلَمْ يَقُلْ إِلَّا مَا كَانَ رَقْمًا فِي ثَوْبٍ قَالَ بَلَى وَلَكِنَّهُ أَطْيَبُ لِنَفْسِي

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 5351

کتاب: زینت سے متعلق احکام و مسائل تصویروں کا بیان حضرت عبید اللہ بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ وہ حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ کی عیادت کرنے کے لیے ان کے ہاں حاضر ہوئے تو وہاں حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ بھی موجود تھے۔ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی سے فرمایا کہ میرے نیچے سے بستر کی چادر نکال دے۔ حضرت سہل رضی اللہ عنہ نے فرمایا: آپ چادر کیوں نکلوا رہے ہیں؟ انہوں نے فرمایا: اس لیے کہ اس کے بارے میں جو کچھ فرمایا ہے، وہ اآپ بھی جانتے ہیں۔ وہ فرمانے لگے: کیا آپ نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ جو تصویر کپڑے میں نقش ہو، اس میں کوئی حرج نہیں۔ انہوں نے کہا: ہاں، مگر مجھے یہ زیادہ اچھا لگتا ہے (کہ کپڑے میں بھی نہ ہو بلکہ سادگی ہو)۔
تشریح : غیر ذی روح اشیا کی تصویر اگرچہ جائز ہے مگر وسیع پیمانے پر نہیں کہ اس کو کاروبار بنا لیا یا زینت کے لیے جگہ جگہ غیر ذی روح اشیا کی تصویریں بنائی یا لٹکائی جائیں کیونکہ اسلام سادہ مذہب ہے۔ اسراف کو پسند نہیں کرتا، اسی لیے حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے اپنے بستر کی چادر پر غیر ذی روح تصویروں کو بھی مناسب نہ سمجھا اگرچہ وہ جائز ہیں، لہٰذا کپڑے یا کاغذ پر منقس تصویریں بھی وہی جائز ہیں جو غیر ذی روح اشیاء کی ہوں۔ یہ اس روایت کی ایک توجیہہ ہے۔ بعض محققین کے نزدیک کپڑے پر منقش تصویر ذی روح چیز کی بھی جائز ہے مگر وہ ثابت نہ ہو بلکہ کٹی ہوئی ہو، یعنی کسی کا سر نہیں، کسی کا دھڑ نہیں، کسی کے بازو نہیں، کسی کا ٹانگیں نہیں۔ گویا تصویر کو ٹکڑوں میں بانٹ کر کپڑا استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔ یا وہ کپڑا اور کاغذ توہین کی جگہ ہو، مثلاً: پاؤں کے نیچے آتا ہو۔ بعض حضرات نے رقماً فی ثوب (کپڑے میں منقش تصویر) کے الفاظ سے اس وسیع کاروبار کو جائز قرار دینے کی کوشش کی ہے جو آج کل فن اور آرٹ بلکہ فیشن کی صورت اختیار کر چکا ہے اور عمومی طور پر عریانی اور فحاشی کا ذریعہ بن رہا ہے۔ فَاِنَّا للهِ وَ إِنَّا إِليهِ راجعون غیر ذی روح اشیا کی تصویر اگرچہ جائز ہے مگر وسیع پیمانے پر نہیں کہ اس کو کاروبار بنا لیا یا زینت کے لیے جگہ جگہ غیر ذی روح اشیا کی تصویریں بنائی یا لٹکائی جائیں کیونکہ اسلام سادہ مذہب ہے۔ اسراف کو پسند نہیں کرتا، اسی لیے حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے اپنے بستر کی چادر پر غیر ذی روح تصویروں کو بھی مناسب نہ سمجھا اگرچہ وہ جائز ہیں، لہٰذا کپڑے یا کاغذ پر منقس تصویریں بھی وہی جائز ہیں جو غیر ذی روح اشیاء کی ہوں۔ یہ اس روایت کی ایک توجیہہ ہے۔ بعض محققین کے نزدیک کپڑے پر منقش تصویر ذی روح چیز کی بھی جائز ہے مگر وہ ثابت نہ ہو بلکہ کٹی ہوئی ہو، یعنی کسی کا سر نہیں، کسی کا دھڑ نہیں، کسی کے بازو نہیں، کسی کا ٹانگیں نہیں۔ گویا تصویر کو ٹکڑوں میں بانٹ کر کپڑا استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔ یا وہ کپڑا اور کاغذ توہین کی جگہ ہو، مثلاً: پاؤں کے نیچے آتا ہو۔ بعض حضرات نے رقماً فی ثوب (کپڑے میں منقش تصویر) کے الفاظ سے اس وسیع کاروبار کو جائز قرار دینے کی کوشش کی ہے جو آج کل فن اور آرٹ بلکہ فیشن کی صورت اختیار کر چکا ہے اور عمومی طور پر عریانی اور فحاشی کا ذریعہ بن رہا ہے۔ فَاِنَّا للهِ وَ إِنَّا إِليهِ راجعون