سنن النسائي - حدیث 532

كِتَابُ الْمَوَاقِيتِ مَا يُسْتَحَبُّ مِنْ تَأْخِيرِ الْعِشَاءِ صحيح أَخْبَرَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَسَنِ وَيُوسُفُ بْنُ سَعِيدٍ وَاللَّفْظُ لَهُ قَالَا حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ قَالَ قُلْتُ لِعَطَاءٍ أَيُّ حِينٍ أَحَبُّ إِلَيْكَ أَنْ أُصَلِّيَ الْعَتَمَةَ إِمَامًا أَوْ خِلْوًا قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ يَقُولُ أَعْتَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ بِالْعَتَمَةِ حَتَّى رَقَدَ النَّاسُ وَاسْتَيْقَظُوا وَرَقَدُوا وَاسْتَيْقَظُوا فَقَامَ عُمَرُ فَقَالَ الصَّلَاةَ الصَّلَاةَ قَالَ عَطَاءٌ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ خَرَجَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهِ الْآنَ يَقْطُرُ رَأْسُهُ مَاءً وَاضِعًا يَدَهُ عَلَى شِقِّ رَأْسِهِ قَالَ وَأَشَارَ فَاسْتَثْبَتُّ عَطَاءً كَيْفَ وَضَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ عَلَى رَأْسِهِ فَأَوْمَأَ إِلَيَّ كَمَا أَشَارَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَبَدَّدَ لِي عَطَاءٌ بَيْنَ أَصَابِعِهِ بِشَيْءٍ مِنْ تَبْدِيدٍ ثُمَّ وَضَعَهَا فَانْتَهَى أَطْرَافُ أَصَابِعِهِ إِلَى مُقَدَّمِ الرَّأْسِ ثُمَّ ضَمَّهَا يَمُرُّ بِهَا كَذَلِكَ عَلَى الرَّأْسِ حَتَّى مَسَّتْ إِبْهَامَاهُ طَرَفَ الْأُذُنِ مِمَّا يَلِي الْوَجْهَ ثُمَّ عَلَى الصُّدْغِ وَنَاحِيَةِ الْجَبِينِ لَا يُقَصِّرُ وَلَا يَبْطُشُ شَيْئًا إِلَّا كَذَلِكَ ثُمَّ قَالَ لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي لَأَمَرْتُهُمْ أَنْ لَا يُصَلُّوهَا إِلَّا هَكَذَا

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 532

کتاب: اوقات نماز سے متعلق احکام و مسائل عشاء کی نماز تاخیر سے پڑھنا مستحب ہے جناب ابن جریج بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عطاء سے پوچھا: کون سا وقت آپ زیادہ مناسب سمجھتے ہیں کہ میں اس میں عشاء کی نماز پڑھوں، خواہ امام ہوں یا اکیلا؟ انھوں نے فرمایا: میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کو مؤخر کیا حتیٰ کہ لوگ سوگئے، پھر جاگے (مگر آپ ابھی تشریف نہ لائے تھے، لہٰذا) پھر سوگئے، پھر جاگے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہوکر پکارا: (اے اللہ کے رسول!) نماز! نماز! (نماز کے لیے تشریف لائیے!) عطاء نے کہا: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ پھر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ میں اب بھی دیکھ رہا ہوں کہ آپ کے سر مبارک سے پانی کے قطرے گر رہے تھے اور آپ اپنا ہاتھ سر کی ایک جانب رکھا ہوا تھا، پھر آپ نے اشارہ کیا۔ (ابن جریج نے کہا:) میں نے عطاء سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست مبارک کس طرح سر پر رکھا ہوا تھا؟ عطاء نے میرے سامنے اس طرح اشارہ کیا جس طرح ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کیا تھا۔ عطاء نے اپنی انگلیاں کچھ کھولیں، پھر انھیں سر پر رکھا کہ آپ کی انگلیوں کے کنارے سر کے اگلے حصے تک پہنچتے تھے، پھر اس (عطاء) نے اپنی انگلیاں ملالیں اور انھیں اس طرح سر پر سے گزارا کہ آپ کے انگوٹھے کان کے اس کنارے کو لگے جو چہرے کی جانب ہے، پھر کنپٹی اور ماتھے کے کنارے کو لگے۔ وہ ذرہ بھر بھی کمی بیشی نہ کرتے تھے بلکہ بالکل اسی طرح، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر یہ خطرہ نہ ہوتا کہ میں اپنی امت کو مشقت میں ڈال دوں گا تو میں انھیں حکم دیتا کہ وہ ضرور اسی وقت نماز پڑھا کریں۔‘‘
تشریح : (۱)’’لوگ سوگئے۔‘‘ اس سونے سے مراد وہ نیند ہے جس سے شعور اور ادراک ختم نہیں ہوتا جسے ہماری زبان میں اونگھ کہتے ہیں، یعنی سخت اونگھ آگئی، بیٹھے، کھڑے اور لیٹے تمام حالتوں میں یہ حالت طاری ہوسکتی ہے کیونکہ یہاں حقیقی نیند، جس سے ادراک اور انسانی شعور ختم ہوجاتا ہے، مراد لینا درست نہیں لگتا کیونکہ اس میں وضو ٹوٹ جاتا ہے، خواہ وہ جس حالت میں بھی آئی ہو۔ (۲)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہا کر تشریف لائے تھے اور اپنے سر کے بالوں سے پانی نچوڑ رہے تھے جسے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اور حضرت عطاء رحمہ اللہ نے اشارے سے سمجھایا اور تفصیل سے ہاتھ گزار کر واضح کیا۔ سر کے لمبے بالوں سے اسی طرح پانی نچوڑا جاتا ہے۔ (۳)’’اگر خطرہ نہ ہوتا‘‘ معلوم ہوتا ہے کہ اگر مقتدی حضرات کو تاخیر میں مشقت ہو تو نماز جلدی پڑھنا مستحب ہے ورنہ دیر سے پڑھنا اچھا ہوگا۔ نمازوں کے اوقات کی وسعت دراصل لوگوں کی مجبوریوں کے پیش نظر ہے۔ واللہ اعلم۔ (۴)سلف صالحین نمازوں کو ان کے اولیٰ اور افضل اوقات میں پڑھنے کا اہتمام کرتے تھے۔ (۵)مفتی پر لازم ہے کہ اپنے فتوے کو قرآن و سنت کے دلائل سے مزین کرے اور سائل کے لیے ضروری ہے وہ جواب کو نہایت توجہ اور انہماک سے سنے تاکہ وہ اچھی طرح سمجھ کر کماحقہ آگے بیان کرسکے۔ (۶)امت محمدیہ کی فضیلت ہے کہ نماز عشاء کو صرف اس امت کے ساتھ خاص کیا گیا ہے جیسا کہ سنن ابوداود کی روایت میں ہے: [فانکم قد فضلتم بھا علی سائر الامم ولم تصلھا امۃ قبلکم] ’’یقیناً تمھیں اس نماز (عشاء) کے ذریعے سے تمام امتوں پر فضیلت دی گئی ہے، تم سے پہلے کسی امت نے یہ نماز نہیں پڑھی۔‘‘ (سنن ابی داود، الصلاۃ، حدیث:۴۲۱) (۱)’’لوگ سوگئے۔‘‘ اس سونے سے مراد وہ نیند ہے جس سے شعور اور ادراک ختم نہیں ہوتا جسے ہماری زبان میں اونگھ کہتے ہیں، یعنی سخت اونگھ آگئی، بیٹھے، کھڑے اور لیٹے تمام حالتوں میں یہ حالت طاری ہوسکتی ہے کیونکہ یہاں حقیقی نیند، جس سے ادراک اور انسانی شعور ختم ہوجاتا ہے، مراد لینا درست نہیں لگتا کیونکہ اس میں وضو ٹوٹ جاتا ہے، خواہ وہ جس حالت میں بھی آئی ہو۔ (۲)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہا کر تشریف لائے تھے اور اپنے سر کے بالوں سے پانی نچوڑ رہے تھے جسے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اور حضرت عطاء رحمہ اللہ نے اشارے سے سمجھایا اور تفصیل سے ہاتھ گزار کر واضح کیا۔ سر کے لمبے بالوں سے اسی طرح پانی نچوڑا جاتا ہے۔ (۳)’’اگر خطرہ نہ ہوتا‘‘ معلوم ہوتا ہے کہ اگر مقتدی حضرات کو تاخیر میں مشقت ہو تو نماز جلدی پڑھنا مستحب ہے ورنہ دیر سے پڑھنا اچھا ہوگا۔ نمازوں کے اوقات کی وسعت دراصل لوگوں کی مجبوریوں کے پیش نظر ہے۔ واللہ اعلم۔ (۴)سلف صالحین نمازوں کو ان کے اولیٰ اور افضل اوقات میں پڑھنے کا اہتمام کرتے تھے۔ (۵)مفتی پر لازم ہے کہ اپنے فتوے کو قرآن و سنت کے دلائل سے مزین کرے اور سائل کے لیے ضروری ہے وہ جواب کو نہایت توجہ اور انہماک سے سنے تاکہ وہ اچھی طرح سمجھ کر کماحقہ آگے بیان کرسکے۔ (۶)امت محمدیہ کی فضیلت ہے کہ نماز عشاء کو صرف اس امت کے ساتھ خاص کیا گیا ہے جیسا کہ سنن ابوداود کی روایت میں ہے: [فانکم قد فضلتم بھا علی سائر الامم ولم تصلھا امۃ قبلکم] ’’یقیناً تمھیں اس نماز (عشاء) کے ذریعے سے تمام امتوں پر فضیلت دی گئی ہے، تم سے پہلے کسی امت نے یہ نماز نہیں پڑھی۔‘‘ (سنن ابی داود، الصلاۃ، حدیث:۴۲۱)