سنن النسائي - حدیث 5308

كِتَاب الزِّينَةِ التَّشْدِيدُ فِي لُبْسِ الْحَرِيرِ وَأَنَّ مَنْ لَبِسَهُ فِي الدُّنْيَا لَمْ يَلْبَسْهُ فِي الْآخِرَةِ صحيح أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مَنْصُورٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَجَاءٍ قَالَ أَنْبَأَنَا حَرْبٌ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ قَالَ حَدَّثَنِي عِمْرَانُ بْنُ حِطَّانَ أَنَّهُ سَأَلَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ عَنْ لُبْسِ الْحَرِيرِ فَقَالَ سَلْ عَائِشَةَ فَسَأَلَتْ عَائِشَةَ قَالَتْ سَلْ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ فَسَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ فَقَالَ حَدَّثَنِي أَبُو حَفْصٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ لَبِسَ الْحَرِيرَ فِي الدُّنْيَا فَلَا خَلَاقَ لَهُ فِي الْآخِرَةِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 5308

کتاب: زینت سے متعلق احکام و مسائل حریر (ریشم) پہننے پرسخت وعید اور اس کا بیان کہ جو شخص اسے دنیا میں پہنے گا، آخرت میں نہیں پہن سکے گا حضرت عمران بن حطان سے مروی ہے کہ انہوں نے حضرت عبد اللہ بن عباس ﷜ سے ریشم پہننے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا:حضرت عائشہ ؓ سے پوچھو۔ میں نے حضرت عائشہ ؓ سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا: حضرت عبد اللہ بن عمر ﷜ سے پوچھو۔ میں نے ابن عمر﷜ سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا: مجھے حضرت ابو حفص ( عمر بن خطاب﷜) نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو دنیا میں ریشم پہنے گا اس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ۔‘‘
تشریح : ۔ ’’عمران بن حطان‘‘ معتبر راوی ہیں ۔ خارجی مذہب رکھتے تھے ۔ بقول بعض بعد میں تائب ہو گئے ۔ بالفرض تائب نہ بھی ہوئے ہوں تو بھی سچے آدمی کی بات معتبر ہونی ہے چاہے کسی عقیدے پر ہو بشرطیکہ اپنے مخصوص عقیدے کی حمایت میں بیان نہ کرے ۔ 2۔ صحابہ کا سائل کو ایک دوسرے کے پاس بھیجنا اس حسن ظن کی بنا پر ہے کہ دوسرا صحابی مجھ سے زیادہ علم رکھتا ہے اور یہ حسن ظن علم کی دلیل ہے ورنہ علم پندار ( غرور) بسا اوقات عالم کولے ڈوبتا ہے ۔ اعاذنا اللہ منہ. 3۔ ’’ابو حفص‘‘ یہ حضرت عمر ﷜ کی کنیت ہے جو ان کی بڑی بیٹی حضرت حفصہ ؓ ام المومنین کی نسبت سے مشہور ہوئی۔ عرب میں کنیت سے ذکرکرنا راحترام کی علامت ہوتا تھا۔ 4۔ ’’کوئی حصہ نہیں ‘‘ یہ الفاظ بطور زجر و توبیح اور ڈانٹ کےہیں ۔ ظاہر الفاظ مقصود نہیں ہوتے ۔ دیگر احادیث اس تاویل کی تائید کرتی ہیں ۔ کسی ایک حدیث کو باقی احادیث سے الگ نہیں کیا جاسکتا ۔ ایک مسئلے کےبارے میں آنے والی تمام روایات کوملا کر نتیجہ نکالاجاتا ہے ۔ ( مسئلے کی تفصیل کے لیے دیکھیے، احادیث:5297، 5306) ۔ ’’عمران بن حطان‘‘ معتبر راوی ہیں ۔ خارجی مذہب رکھتے تھے ۔ بقول بعض بعد میں تائب ہو گئے ۔ بالفرض تائب نہ بھی ہوئے ہوں تو بھی سچے آدمی کی بات معتبر ہونی ہے چاہے کسی عقیدے پر ہو بشرطیکہ اپنے مخصوص عقیدے کی حمایت میں بیان نہ کرے ۔ 2۔ صحابہ کا سائل کو ایک دوسرے کے پاس بھیجنا اس حسن ظن کی بنا پر ہے کہ دوسرا صحابی مجھ سے زیادہ علم رکھتا ہے اور یہ حسن ظن علم کی دلیل ہے ورنہ علم پندار ( غرور) بسا اوقات عالم کولے ڈوبتا ہے ۔ اعاذنا اللہ منہ. 3۔ ’’ابو حفص‘‘ یہ حضرت عمر ﷜ کی کنیت ہے جو ان کی بڑی بیٹی حضرت حفصہ ؓ ام المومنین کی نسبت سے مشہور ہوئی۔ عرب میں کنیت سے ذکرکرنا راحترام کی علامت ہوتا تھا۔ 4۔ ’’کوئی حصہ نہیں ‘‘ یہ الفاظ بطور زجر و توبیح اور ڈانٹ کےہیں ۔ ظاہر الفاظ مقصود نہیں ہوتے ۔ دیگر احادیث اس تاویل کی تائید کرتی ہیں ۔ کسی ایک حدیث کو باقی احادیث سے الگ نہیں کیا جاسکتا ۔ ایک مسئلے کےبارے میں آنے والی تمام روایات کوملا کر نتیجہ نکالاجاتا ہے ۔ ( مسئلے کی تفصیل کے لیے دیکھیے، احادیث:5297، 5306)